- Advertisement -

سلیم فائز

سلیم فائز پر جاوید مہدی کا ایک مضمون

شاعری کے اسرار بھی کائنات کے ان رازوں کی مانند ہیں جو منکشف ہو کر بھی مکمل طور عیاں نہیں ہوتے۔۔۔
شاعر ان سر بستہ رازوں کی حقیقت پانے کے لیے اپنے اندر چھپی ذات کی لامحدود کائنات کا بہت طویل سفر کرتا ہے۔۔۔
اس سفر کے دوران وہ مختلف کیفیات اور ادراک کی منزلوں سے گزرتا ہے۔۔۔
اپنے اندر کے انسان سے مل کے وہ ایک عجیب سی حیرت و انبساط کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔۔۔
سلیم فائز نے بھی اپنے اندر اور باہر کی دنیا کا بہت طویل سفر کیا ہے۔ اُس کا وجدان اُس کی انگلی پکڑ کر اسے ایسے نادیدہ اور ناآفریدہ دنیاؤں کی سیر کراتا ہے جہاں کے تحیر آمیز مناظر سے وہ نہ صرف خود بھی چونکتا ہے بلکہ پڑھنے والے کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔۔۔
اس تحیر آمیز سفر کی روداد اُس نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’ اکتفا ‘‘ میں اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں انتہائی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔۔۔
سلیم فائز نے اپنی شاعری میں زندگی کے تمام رنگوں کو یکجا کر کے بڑی فنکارانہ مہارت سے ایک ایسی خوبصورت اور حیران کر دینے والی تصویر بنائی ہے جو دیکھنے والے کو کافی دیر تک حیرت وانبساط کی کیفیت سے دوچار رکھتی ہے۔۔۔
سلیم فائز کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اسکا منفرد اور چونکا دینے والا انداز بیان اور موضوعات کا تنوع ہے۔۔۔
بھاری بھرکم لفظوں او ترکیبات کے گورکھ دھندوں سے آزاد انتہائی سادہ اور آسان لفظوں میں اپنا مافی الضمیر انتہائی کامیابی سے بیان کر دینا انتہائی مشکل فن ہے اور حیرت اور مسرت کی بات ہے اس فن پر سلیم فائز کو مکمل عبور حاصل ہے۔۔۔
جہاں فکری کے حوالے سے بھی سلیم فائز کی شاعری ایک منفرد مقام رکھتی ہے وہاں فنی حوالے سے بھی اسکی شاعری کسی عمدہ اور معیاری شاعری سے کم نہیں ۔۔
اشعار میں موجود روانی، آہنگ اور موسیقیت سے پڑھنے والا جھوم اُٹھتا ہے۔۔
سلیم فائز کی شاعری میں ہمیں دوسروں کے لیے قربانی اور اپنی ذات کی نفی کا عنصر بھی جا بجا ملتا ہے۔ وہ دوسروں کی خوشی کے لیے خود کو دُکھی کر لیتا ہے اور گرد و پیش کو خبر بھی نہیں ہونے دیتا!
سلیم فائز کے اشعار میں ایک نیا پن چھلکتا ہے۔ وہ نئے موضوعات کو اپنے مخصوص انداز میں دیکھ کر ایسے شعری قالب میں ڈھالتا ہے کہ شعر شعر نہیں ایک شہ پارہ بن جاتا ہے۔۔۔
الفاظ کے چناؤ، جذبے کی سچائی، بیان کی بے ساختگی نے سلیم فائز کی شاعری کو وہ تاثیر اور لذت عطا کی ہے جو پڑھنے والے کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتی۔ محبت ، اظہارِ محبت، ، نارسائی ، دل شکستگی اور جدائی کی سب کیفیات اور ذائقے سلیم فائز نے بہت سچائی اور اچھوتے انداز میں بیان کیے ہیں ۔۔۔
نامور شاعر اسلم انصاری نے اپنی کتاب ’’خواب اور آگہی‘‘ کے ۔۔’’ پیش آہنگ‘‘ میں لکھا ہے ’’انفرادی اور اجتماعی لا شعور کی دنیاؤں میں تخلیقی محرکات بعض اوقات صدیوں کی گہرائیوں سے ابھر کر آتے ہیں اور بعض اوقات ایک ترکیبِ تازہ میں انسانیت کی صدیوں کی سرگزشت سمٹ آتی ہے‘‘۔۔۔
سلیم فائز کا وجدان بھی صدیوں کا سفر ایک پل میں طے کر کے اسے لمحۂ موجود کے اجتماعی شعور میں اس طرح پیوست کر دیتا ہے کہ وہ نہ صرف آج بلکہ کل کا بھی معتبر حوالہ ٹھہرتا ہے۔۔۔
” اکتفا ” سے کچھ انتخاب پیشِ خدمت ہے۔۔
اشعار ملاحظہ ہوں۔

اب کوئی شخص محبت سے نہ دیکھے مجھ کو
اب مجھے عشق دوبارہ نہیں ہونے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز قسمت سے ہار جاتا ہوں
روز سکہ اُچھالتا ہوں میں
اے مری زندگی اداس نہ ہو
کوئی رستہ نکالتا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کی وہ باتیں اب کہاں ہیں
بدن کی بس نمائش ہو رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کا رشتہ نہیں ہے کوئی
تمام رشتے ضروتیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے حسن کا دل کش سراپا میں نے کھینچا ہے
تمہاری شال پر روشن مرے فن کے ستارے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو گئے قید اُس جگہ فائز
جس سے ہم نے فرار مانگی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری در ماندگی سے در حقیقت
مری تکمیل ہوتی جا رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نا مکمل تھا کہاں سے یہ جہاں
کس لیے بھیجا گیا ہوں میں یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جہالت کی بات کرتا ہے
اس لیے اختلاف کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش لباسی نہ بدن ڈھانپ سکے گی
جسم کا جسم لبادہ ہے مری جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی عمدہ اور کام کی غزل
۔۔۔۔۔۔
حیات یوں نہ گنواؤ کسی کے کام آؤ
کوئی مثال بناؤ. کسی کے کام آؤ
کسی کو دے کے سہارا مقام تک چھوڑو
کسی کو پار لگاؤ کسی کے کام آؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں اسے بے وفا کہا جا ئے
ہو سکے یہ کسی کی عادت ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو حصوں میں بانٹنا ہے مجھے
یہ جو روٹی کا اک نوالہ ہے
بیچ کر جسم کچھ درندوں کو
بھوکے بچوں کا پیٹ پالا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس طرف سفر کروں میں
بے کراں ہے شش جہات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدمی وہی ہے جو
پیکر ِ محبت ہے
۔۔
سلیم فائز صاحب کو ان کے پہلے شعری مجموعہ ” اکتفا ” کی بہت بہت مبارکباد ۔۔
دعا ہے مالک سلیم فائز صاحب کو اسی طرح شاعری سے بھرا رکھے
الہیٰ آمین

جاوید مہدی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسرت موہانی