آپ کا سلاماردو نظمشاکرہ نندنیشعر و شاعری

شکوہ جوابِ شکوہ

ایک اردو نظم از شاکرہ نندنی

کبھی خواب بنتی تھی دنیا، کبھی ساز و نغمہ کی محفل،
اب ہر ایک دل ہے خموش، ہر نظر ہے گہری و مضمحل۔

کہاں وہ صبحیں کہ نرماہٹ میں چپکے راز چھپے ہوتے،
کہاں وہ شامیں کہ تنہائی میں بھی کچھ ساز بجے ہوتے؟

کہاں گئی وہ ہنسی فضا کی؟ وہ نرمی، وہ چہکار کہاں؟
ہر شے میں کیوں اک بیزاری ہے؟ ہر منظر میں انکار کہاں؟

اے وقت! تجھے کیوں فرصت ہے صرف مٹانے کی؟
تُو دیتا کیوں ہے خواب ہمیں، پھر چھیننے کی رسمیں کیوں؟

ہم نے چراغ جلائے تھے، دیواروں کو گواہ کیا،
پھر بھی اندھیروں سے کیسا ہے تیرا خوں رنگ ربطِ وفا؟

ہم نے کتابیں لکھیں، نغمے گائے، ساز بنائے،
اور تیری آندھی نے ہر شے کو بے نام کرایا!

کیا تجھ کو ہماری لگن کی قسم نہ تھی؟
کیا ہم فقط ایک لمحۂ خاموشی کے قابل تھے؟

اے فطرت! تُو بھی چپ کیوں ہے؟ کیوں نہ جواب دیتی ہے؟
کیا تیرے اندر بھی اب کوئی زندہ نغمہ نہیں بچا؟

کبھی ہم نے تجھ سے رنگ چرا کر، خوشبو سے خواب بنائے،
آج تُو ہمیں خالی ہاتھ، بن موسم، کیوں لوٹائے؟

یہ دنیا کیوں زخموں کی منڈی بن کر رہ گئی؟
جہاں ہنسی بھی تجارتی، اور اشک بھی نیلامی ہو گئے؟

اے دل! تُو کب تک صبر کرے؟ کب تک صدا گُم رہنی ہے؟
کب کوئی سننے والا ہو گا؟ کب یہ صدی ٹھہری ہو گی؟

جوابِ شکوہ

تو کہتا ہے خواب گرے، ساز بجے نہ نغمہ بنے،
کیا ساز تیرے ہاتھ میں تھا؟ یا تُو خود ہی بے دَم بنے؟

تو چاہتا تھا بہار چلے، اور زخم بھی نہ لگیں تجھے،
پھر کس نے تجھے یہ بتایا کہ گلزار میں کانٹے نہیں؟

دنیا کو تو نے سمجھا کیا؟ ایک ہنسی کا میدان فقط؟
یہ کائنات ہے کرب کا فن، یہ زندگی ہے ایک فنونِ ضبط۔

تو مانگتا ہے روشنی، پر تیری آنکھ بند رہی،
تُو خود گُم صُم تھا اندر سے، باقی دنیا کب خواب بنی؟

وہ وقت کہ تُو جلتا تھا، اک جذبہ، اک آگ سا،
اب تو فقط سائے میں ہے، اک زرد، بجھا چراغ سا

فطرت کبھی خاموش نہیں، تُو ہی سن نہ سکا صدا،
پتوں میں، پانی میں، ہَوا میں، ہر شے میں بولا تھا خدا!

وقت نے تجھ کو موقع دیا، ہر موڑ پہ راستے رکھے،
تُو بھٹک کے کہتا ہے اب، کہ میرے خواب چھینے گئے؟

سچ تو یہ ہے، اے درد کے شاعر! تُو خود سے ناراض ہے،
آئینے سے شکوہ کرتا ہے، جب چہرہ بے ناز ہے۔

تُو چاہتا ہے دنیا بدلے، اور تُو نہ بدلے ایک ذرا،
یہ فطرت کا قانون نہیں، یہ ضد ہے، یا خوابِ سرا؟

ہر شے سے پہلے خود کو بنا، وہ روشنی، وہ راز بن،
پھر دیکھ تیری سانسوں میں، کیسے بجتا ساز بن!

یہ وقت بھی تیرے ہاتھوں میں ہے، یہ فطرت بھی تیری دوست،
مگر شرط ہے: تُو جاگے، تُو بنے اک نیا شعور، اک نیا جوش!

ڈاکٹر شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ بندۂ ناچیز ایک ہمہ جہت فنکارہ ہے، جس نے ماڈلنگ، رقص، تحریر، اور شاعری کی وادیوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ سب فنون میرے لیے ایسے ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کے مختلف کنارے، جو میری زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button