مرے اندر روانی ختم ہوتی جا رہی ہے
سو لگتا ہے کہانی ختم ہوتی جا رہی ہے
اسے چھو کر لبوں سے پھول جھڑنے لگ گئے ہیں
مری آتش فشانی ختم ہوتی جا رہی ہے
سلگتے دشت میں اب دھوپ سہنا پڑ گئی ہے
تمہاری سائبانی ختم ہوتی جا رہی ہے
ہمارا دل زمانے سے الجھنے لگ گیا ہے
تمہاری حکمرانی ختم ہوتی جا رہی ہے
سمندر سے سمٹ کر جھیل بنتے جا رہے ہیں
ہماری بے کرانی ختم ہوتی جا رہی ہے
احمد خیال