- Advertisement -

پھر ترا ذکرِ چلے

ایک نظم از حسن فتحپوری

سرمئی شام ڈھلے
پیڑوں کے سائے کے تلے
پھر ترا ذکر چلے

دور تک پھیلی ہوئی چاروں طرف ہریالی
جیسے دھرتی پہ کسی نے ہری چادر ڈالی
پتے خوش ہو کے بجانے لگے مل کر تالی
جھوم کر پیڑ بھی اک دوجے سے ملتے ہیں گلے
پھر ترا ذکر چلے

چھت پہ پربت کے ہیں بادل کے گھنیرے سائے
بھیڑ اتنی ہے کہ سورج. بھی نہ آنے پائے
ایسا سناٹا کہ خاموشی یہاں چلائے
ایسے ماحول میں تنہائی مرے دل کو کھلے
پھر ترا ذکر چلے

دیکھ جھرنوں سے یہ گرتا ہوا [ٹھنڈا پانی
جیسے تو چلتی ہے اس طرح سے بہتا پانی
جانے انجانے تری یاد دلاتا پانی
رات ہونے کو ہے. یادوں کے کئ دیپ جلے
پھر ترا ذکر چلے

حسن فتحپوری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک نظم از حسن فتحپوری