اک دیا سا جلا ہے کھڑکی میں
کون آ کے کھڑا ہے کھڑکی میں
چاندنی حیرتوں سے تکتی ہے
عکس کس کا پڑا ہے کھڑکی میں
ہاتھ لمبے کیے ہیں بِیلوں نے
پھول تازہ چڑھا ہے کھڑکی میں
کون آیا ہے سامنے یکدم
کوئی دفعاً ڈرا ہے کھڑکی میں
تیری خوشبو فضا میں بکھری سی
ایک گملا پڑا ہے کھڑکی میں
محمد رضا نقشبندی