- Advertisement -

میں سو رہا تھا خواب کی زنجیر کھینچ کر

صابر رضوی کی ایک اردو غزل

میں سو رہا تھا خواب کی زنجیر کھینچ کر
کس نے جگا دیا مجھے تعبیر کھینچ کر

حرکت نہ ہو تو زندگی ٹھہری ہوئی ندی
ٹک ٹاک ہی بنا مری تصویر کھینچ کر

چلنے لگی ہوا تو مرا سانس رک گیا
اور لوگ لے گئے مری تنویر کھینچ کر

جو امتیاز کر نہ سکے اشک و لفظ میں
لے آئے ہیں غزل میں غمِ میر کھینچ کر

شاید اسے کماں سے اجازت نہیں ملی
چھوڑا نہیں ہے جس نے ابھی تیر کھینچ کر

یہ آسماں کی سمت نکلتے ہوئے درخت
لے جائیں گے زمین سے تاثیر کھینچ کر

اتنی سی بات پر بھلا کیا حد لگائے گا
منصف کو مار دوں جو میں تعزیر کھینچ کر

مسجد کی سیڑھیوں پہ سحر دم پڑے رہے
پیشانیوں پہ قشقہء تقصیر کھینچ کر

کچھ یوں بھی ٹھنڈی چھاؤں کو ترسا ہوا تھا دل
کچھ پیڑ نے بٹھا لیا رہ گیر کھینچ کر

دائیں بھی آگ ہے مرے بائیں بھی آگ ہے
لے آئی ہے کہاں مجھے تقدیر کھینچ کر

علی صابر رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ