کوئی بھی کام کاج ٹھیک نہیں
اہلِ دل کا رواج ٹھیک نہیں
یوں تو لازم ہے عشق میں پردہ
پھر بھی خلوت میں لاج ٹھیک نہیں
مجھ کو الزام وہ بھی دیتا ہے
جس کے اپنے مزاج ٹھیک نہیں
حسرتِ نا تمام کی خاطر
آنسوؤں کا خراج ٹھیک نہیں
دل کی وحشت زدہ حویلی پر
یادِ ماضی کا راج ٹھیک نہیں
سامنے ہو اگر وہ چارہ گر
کیسے کہہ دوں علاج ٹھیک نہیں
کل بھی ایسے ہی بد گماں تھے وہ
جن کی نظروں میں آج ٹھیک نہیں
خود تو بگڑے ہوئے ہیں سب لیکن
کہہ رہے ہیں سماج ٹھیک نہیں
منزہ سید