آپ کا سلاماردو افسانےاردو تحاریرسید محمد زاہد

کج روی کا حسن

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

اس کو اپنے باپ سے پیار بھی بہت تھا اور شاید نفرت بھی۔ وہ بہت اچھا لگتا تھا لیکن اس کی کچھ حرکات ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ خاندان کے لوگ کہتے تھے کہ جب سے میر بھجڑی کی کڑھائی کا حلوہ کھایا ہے اسے کسی پہلو کل نہیں پڑتی۔ اس کا انگ انگ تھرکتا رہتا تھا۔ یہی باتیں وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے اپنا شہر چھوڑ دیا۔ اس ملک کے لوگوں کو تمیز ہی نہیں، ہمدردی دکھانے کے بہانے ہمیشہ دوسروں کی دکھتی رگ کو چھیڑتے ہیں۔ اس طرح کا رویہ اسے ہر سکول میں ملتا تھا۔

وہ اس سکول میں بھی مذاق نہیں بننا چاہتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک نہ ایک دن یہ ضرور ہو گا۔ ایسے فضول خیالات کا اسیر بن کر وہ پورا سال نہیں گزار سکتی تھی۔ جب ٹیچر نے بتایا کہ وہ ہر طالبہ کی گھریلو زندگی کا ایک جائزہ مرتب کر رہی ہے تو اس کا پہلا سوال ہی اسے بہت برا لگا۔ ٹیچر بچی کے تاثرات محسوس کیے بغیر بولتی جا رہی تھی۔

” تمہارے والد صاحب کیا کام کرتے ہیں؟ ان کی طلاق کب ہوئی تھی؟ تمہاری ماں تمہیں کیوں چھوڑ کر گئی؟ کیا تمہاری ماں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے؟“

سارے سوال اس کے کچے زخموں کے کھرنڈ نوچ رہے تھے۔ ٹیچر دوستانہ لہجے اس کے سر پر ہاتھ رکھے ہمدردی جتلا رہی تھی کہ اسے سب پتا ہے۔ لیکن رافعہ کو سن کر متلی ہو رہی تھی۔ پچھلی کلاس ٹیچر اسے نظرانداز کرتی رہی جس سے کم از کم ایسا مکروہ چہرہ تو نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ خجلت زدگی اور الجھاوے میں پڑے رہنے کی بجائے وہ ٹیڑھی آنکھوں سے بار بار ٹیچر کو گھور رہی تھی۔ ٹیچر سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی طالبہ اس حد تک بدتمیز ہو سکتی ہے۔

وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں تھی۔ پرنسپل کے لیے سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔
”ہوا کیا تھا؟“
”تم نے کیا کیا کہ اتنی پیاری ٹیچر پریشان ہو گئی؟“
”اس لڑکی کا کیا مسئلہ ہے؟“

وہ پرنسپل آفس کے فرش پر پاؤں جمائے کھڑی تھی۔ دونوں ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالے غصے سے اس نے مٹھیاں بھینچ رکھی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو چکے تھے۔

”سپورٹس ڈے پر تمام طالبات ایک پروگرام پیش کر رہی ہیں لیکن یہ لڑکی مخصوص لباس پہننے سے انکار کر رہی ہے۔ ہمارے پاس پہلے ہی طالبات کم ہیں اگر وہ شامل نہیں ہوگی تو پوری کلاس کا نقصان ہو گا۔ یہ پریکٹس ٹھیک کر رہی تھی اب اس لباس کو دیکھ کر بدک گئی ہے۔“

سرخ اسکرٹ ٹیچر کے ہاتھ سے لٹکا ہوا تھا۔ جسے دیکھتے ہی اس نے منہ پھیر لیا تھا۔
”اسے یہ سکرٹ پسند نہیں؟ باقی تمام لڑکیاں رشک سوں پھر رہی ہیں اور یہ ناک بھوں چڑھا رہی ہے۔“

اساتذہ میں سے ایک نے اسکرٹ لیا اور اسے گھما پھرا کر دکھایا اور پھر اس کی کمر کے ساتھ لگا کر کہنے لگی

”دیکھو؟ کتنا خوبصورت ہے!“

اس نے پیچھے مڑ کر ٹیچر کے ہاتھ کو زور سے جھٹک دیا۔ اسکرٹ فرش پر گر گیا۔ ٹیچر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔

”بدتمیز، تمہاری ہمت کیسے ہوئی اپنی ٹیچر کو یوں جھٹکنے کی!“
ٹیچرز نے رافعہ کو گھیر لیا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ہونٹ پھڑکنے لگے۔
”میں یہ نہیں پہنوں گی! آپ مجھے مجبور نہیں کر سکتے۔“

اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ سب چونک کر پیچھے ہٹ گئے۔ چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہے۔

”چیخ کیوں رہی ہو؟ کون کہتا ہے کہ تمہیں یہ روز پہننا ہو گا۔ صرف ایک دن، وہ بھی صرف اس پروگرام کے دوران۔ اتنی سی بات پر تم چڑ گئی ہو۔ کیا تم اس سکول کا حصہ نہیں ہو؟“

”میں اسے پہننے کی بجائے سکول چھوڑ دوں گی!“

رافعہ نے اپنے ہاتھ جیبوں سے باہر نکال کر ٹیچر کی طرف لہرائے۔ پتھر جیسی سخت مٹھیاں بتا رہی تھیں کہ سامنے آنے والی کسی بھی ٹیچر کو ادھیڑ کر رکھ دیں گئیں۔ سب خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئیں۔

”بہتر ہے کہ تم کل اپنے والد کو دفتر لے آؤ۔“
وہ ذرا بھی خوفزدہ نہ ہوئی، اس کی بجائے، وہ اور بھی زور سے چلائی۔
”نہیں!“

”خاموش! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم سے یوں بات کرنے کی!“ وائس پرنسپل اپنی میز کے پیچھے سے نیزے کی طرح کی لمبی چھڑی لہراتے چلایا۔ خواتین اساتذہ اپنی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ رافعہ نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا۔

”اپنی بکواس بند کرو، اور کل اپنے والد کو اسکول لے کر آنا!“
وائس پرنسپل نے اپنی چھڑی کو اس کی طرف بڑھاتے ہوئے حتمی فیصلہ سنا دیا۔

رافعہ کی بھنویں تن گئیں۔ تنگ ماتھے پر بالوں کی لٹیں ڈولنے لگیں۔ ادھر ادھر دیدے گھماتے ہوئے کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے فرش سے سرخ اسکرٹ اٹھا کر لیر و لیر کر دیا۔ پھر چیتھڑے میز پر پھینک کر بھاگ اٹھی۔ وائس پرنسپل اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کے پیچھے لپکا لیکن وہ بھاگتی ہوئی سکول کے صحن کے اس پار پہنچ چکی تھی۔

اس نے جھوٹ نہیں کہا تھا وہ سرخ سکرٹ پہننے کی بجائے سکول چھوڑ دینا چاہتی تھی۔ وہ بھاگتی جا رہی تھی۔ سڑک پر گلیوں میں۔ سرخ رنگ اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اس کی سفید یونیفارم کے ساتھ لپٹا ہوا تھا۔ اسکرٹ کے چیتھڑے، اس کے دھاگے اس کے ساتھ لہرا رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے ہاتھوں سے انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ راستے میں نظر آنے والے ہر سرخ کپڑے کو وہ پھاڑ دینا چاہتی تھی۔

٭٭٭

اس کا باپ خبطی دیوانہ تھا یا احمق۔ شاید وہ پیدا ہی ایسا ہوا تھا یا بچپن میں کسی حاسد کی بری نظر پڑ گئی تھی۔ نیاز کا حلوہ کھانے سے کوئی کیسے بہک سکتا ہے۔ اس کی ماں کو کسی پیر فقیر کی بد دعا لگی یا کسی دھتکارے ہوئے بے کس و بے نوا کی بد نظری کا شاخسانہ تھا جو یہ لعنت ابا کے ساتھ چپک گئی تھی۔ اور وہ اس جنونی دیوانے باپ کی بیٹی تھی۔

جب رافعہ نے دروازہ کھولا تو اس کا خیال تھا کہ بے کراں خاموشی اس کا استقبال کرے گی۔ تنہا سہمی سی خاموشی جس سے کمپیوٹر کی گھوں گھوں لڑنے کی کوشش کر رہی ہوگی۔ وہی کمپیوٹر جو وہ صبح چلتا ہی چھوڑ گئی تھی۔ لیکن اس کے والد، جو صبح سوٹ پہن کر گھر سے نکلے تھے، چولہے کے سامنے پسینے میں شرابور کھڑے تھے۔ رافعہ کو دیکھ کر کھسیانی مسکراہٹ ان کے چہرے پر بکھر گئی۔ وہی مسکراہٹ جو اس نے اسٹور پر لپ اسٹک کے مختلف شیڈز آزماتے ہوئے ان کے ہونٹوں پر دیکھی تھی۔ اور وہ کہہ رہے تھے،

”یہ رنگ کتنے خوبصورت ہیں؟“
وہ اس مسکراہٹ کو برداشت نہ کر سکی۔ وہ سنکی دیوانہ تھے۔
اس نے اپنا بیگ فرش پر پھینک دیا۔
”آج تم جلدی گھر آ گئی ہو؟“
کوئی جواب نہ پا کر پھر بولا

”بھاگ کر آؤ، بیٹھو۔ دیکھو میں نے تمہاری پسندیدہ ڈش تیار کی ہے۔ جونہی پنیر پگھلے گا یہ کھانے کو تیار ہوگی۔“

اس کے سرخ ہونٹ کوئی بے نام دھن گنگنانے لگے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کون سا گانا تھا، لیکن وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی آواز اچھی نہیں تھی لیکن چونکہ وہ لرزاں آواز میں گاتا تھا، بالکل عورتوں کے انداز میں، اسے یہ لہجہ بہت برا لگتا تھا۔ جب رافعہ چھوٹی تھی، خواتین گلوکاروں کی نقل کرنے کی اس صلاحیت کو دیکھ کر وہ حیران رہ جاتی تھی، مگر اب نہیں۔ اب وہ جانتی تھی کہ یہ اس کے والد کی آشفتگی بلکہ شوریدہ سری ہے۔

”آپ کام پر نہیں گئے؟“ اس نے پوچھا۔

”میں نوکری چھوڑ رہا ہوں۔ یہاں کے لوگ میری قدر نہیں جانتے۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے : تم سمجھتے ہو کہ اس کے علاوہ مجھے کہیں اور نوکری نہیں ملے گی؟ سنبھالو اپنا کام، میں جا رہا ہوں۔“ وہ اپنے خاص انداز میں الفاظ کو چبا کر، ربڑ کی طرح کھینچ کر بول رہا تھا۔

جوں جوں ہنڈیا میں ابال آ رہا تھا اس کی گنگناہٹ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا بید کی طرح کا پتلا اور لچک دار جسم گانے کی دھن کے ساتھ ڈول رہا تھا۔ رافعہ نے لمحہ بھر کے لیے اسے دیکھا اور بھاگ کر باتھ روم میں گھس گئی۔ پانی گرنے کے شور کے ساتھ ہی باہر اس کی زنانہ آواز مزید بلند ہو گئی۔ اس نے غالباً ہنڈیا کو ابلتے ہوئے چھوڑ کر کمرے میں گھومنا شروع کر دیا تھا، جیسے کوئی ماہر پاپ اسٹار سامعین کے سامنے سٹیج پر گا رہا ہو۔

رافعہ بھاگ کر سنک کے پاس گئی اور اس کی آواز کو دبانے کے لیے پانی کی دھار کو مزید تیز کر دیا۔ پانی نل سے نکل کر سنک کے اطراف زور سے ٹکرایا۔ لیکن جعلی پاپ اسٹار کی باریک تیز آواز پانی کے بہاؤ کے ساتھ تیرتی اور چھینٹوں کے ساتھ اڑتی پورے باتھ روم میں پھیل گئی۔ اس نے گرم پانی کا نل بھی کھول دیا۔ بھاپ باہر نکلی، اور گرم پانی سنک کے اطراف میں بکھر گیا۔ لیکن اس آواز کی ہر چیز پر بھاری تھی۔

اس نے ہاتھ منہ دھوتے دھوتے بتا دیا۔
”بابا میری ٹیچر آپ سے ملنا چاہتی ہے۔“
”کیا؟ اس سکول میں بھی کوئی بات ہو گئی ہے؟“

وہ کچن میں کام کرتے کرتے رک گیا۔ لکڑی کے پتلے دروازے کے اس پار سے آنے والی آواز میں فکرمندی اور مایوسی کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ رافعہ مزید کچھ نہ کہہ سکی لیکن وہ جانتی تھی کہ جب تک جواب نہیں دے گی اس کی پریشانی بڑھتی جائے گی اور وہ کام پر توجہ نہیں دے پائے گا۔ اس نے تمام نل بند کر دیے۔ ایک دیوانے مجنوں باپ کی بیٹی ہونا مشکل کام ہے۔

٭٭٭

آدھی رات ڈھل چکی تھی۔ دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز آئی جیسے کوئی چور ڈرتا ڈرتا گھر میں گھس رہا ہو۔ رات کی خاموشی میں ہلکی سی آواز بھی گونج اٹھتی ہے۔ پرانے دروازوں کی چولیں بھیگی رات کی خاموشی میں چیخ چیخ کر سب کچھ بتا دیتی ہیں۔ یہ شور اسے ہمیشہ بتا دیتا تھا کہ اس کے والد کب گئے تھے اور کب واپس آئے؟ اس نے آنکھیں کھول کر گھڑی کی طرف دیکھا۔ دو بجے تھے۔ کیا اسے اٹھنا چاہیے؟ وہ ہچکچائی۔ لیکن اس کا جسم پہلے ہی بستر سے آدھا باہر تھا۔ اسے ان سے بات کرنی تھی۔ دروازہ کھولا۔ خون کے لوتھڑے کی طرح کے گول مول چہرے سے سرخ رنگ ٹپک رہا تھا۔ اس کے لیے یہ نئی بات نہیں تھی۔ ذرا بھی جھجکے بغیر بولی

”میں ماں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔“

سرخ گولا سیدھا ہوا؛ دونوں ہاتھ اوپر اٹھے اور سر سے لٹکتے لمبے ڈھیلے بالوں کو کھینچ لیا۔ وگ فرش پر گر گئی۔

”تم بھی۔ مجھے چھوڑ جانا چاہتی ہو؟“
”آپ نے مجھے پہلے چھوڑ دیا، پاپا۔ جس طرح آپ نے ماں کو چھوڑا تھا۔“

گھپ اندھیرے میں بھی، اس غیر معمولی مختصر اسکرٹ کا سرخ رنگ ایسا لگتا تھا جیسے بلغمی خون کا جما ہوا لوتھڑا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور آہستہ آہستہ چلتی واپس بیڈ پر آ گئی۔ بند آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی کیونکہ کھرنڈ کی طرح ایک سرخ سوکھے ماس کی پیڑی جم کر انہیں بوجھل کر گئی تھی۔

پہلی بار جب اس نے پاپا کو اسکرٹ پہنے دیکھا تو مذاق سمجھی تھی۔ پاپا اس سے کھیل رہے تھے۔ وہ یہ تو نہیں جانتی تھی کہ ماں نے انہیں کیوں چھوڑا لیکن جب بھی ماں کو یاد کر کے روتی تو اس کے پاپا ماں کی الماری سے سرخ سکرٹ نکال کر پہن لیتے اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتے کھیلتے سو جاتی۔ ماں تو اس نے دیکھی بھی نہیں تھی لیکن اس کی جگہ پر باپ ہمیشہ اس کے لباس اور حلیے میں موجود ملتا۔

سکول کی ابتدائی کلاسوں میں ہی وہ یہ جان گئی تھی کہ دوسرے بچوں کے والد تو انہیں خوش کرنے کے لیے ایسا نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ سوچتی کہ چونکہ اس کی ماں نہیں تو یہ کمی پوری کرنے کے کے لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ بہت خوش ہوتی۔

پھر اسے پتہ چلا کہ وہ کبھی کبھی اس کے سونے کے بعد سرخ لپ اسٹک اور سرخ اسکرٹ پہنے گھر سے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ مزید یہ بھی پتہ چلا کہ ماں ان حرکتوں کی وجہ سے ہی چھوڑ کر گئی تھی۔ بڑی کلاس میں پہنچی تو دوسرے بچوں نے انہیں اس کج روی پر ہیجڑہ کہہ کر رافعہ پر طنز شروع کر دیا۔ اب وہ اس کے سامنے یہ حلیہ بناتے تو وہ ہنسنے کی بجائے خاموش ہو جاتی۔

جیسے جیسے اس کی چھاتیاں ابھرنے لگیں، رافعہ کو اس حقیقت سے نفرت ہونے لگی کہ وہ دوسرے لوگوں سے مختلف تھا۔ وہ خوفزدہ تھی کہ اس کے دوست کسی دن سڑک پر اس حلیے میں دیکھ کر اسے بدکار کہنا شروع کر دیں گے۔ وہ اپنے والد کو ایسی حرکات سے منع کرنا چاہتی تھی، لیکن اگر وہ باز نہ آئے تو کیا ہو گا؟ اسے خوف تھا کہ وہ سرخ اسکرٹ کی وجہ سے انہیں کھو سکتی ہے۔ لیکن اب رافعہ اور اس کے والد کے بیچ دوری بڑھ گئی تھی، ایک ایسے زخم کی طرح جو مندمل ہونے کی بجائے پھیلتا چلا جاتا ہے۔

٭٭٭

صبح ناشتہ کی میز پر دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ رافعہ کا اسکول جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سکول میں فون پر بات کرنے کے بعد اس کے باپ نے کچھ نامعلوم نمبروں پر بھی کال کی۔ دوپہر کو وہ کمرے میں لیٹی تھی کہ وہ دستک دے کر اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں دو بیگ تھے

”کپڑے پہن لو“ اس نے کہا۔ ”میں تمہیں تمہاری ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔“

ماں کیسی ہوگی؟ ایک البم میں تصاویر موجود تھیں۔ رافعہ نے طویل عرصے سے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ یقیناً اسے اپنی ماں کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ اسے دکھ تھا کہ وہ انہیں کیوں چھوڑ کر گئی؟ وہ ان کے پاس رہتی تو شاید والد کی حالت ایسی نہ ہوتی۔ اگر وہ ایسی عادات کا حامل تھا تو بھی انہیں ٹھیک کر سکتی تھی۔ وہ معمولی سے بات پر اس شخص سے ناراض ہو کر چلی گئی جو اس سے محبت کرتا تھا اور اس کا سکرٹ پہن کر دل خوش کر لیتا تھا۔ وہ اس وجہ سے اپنی بیٹی کو بھی چھوڑ کر والدین کے پاس چلی گئی۔ اسے ماں کی چاہت نہیں تھی۔ وہ باپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی لیکن یہ حرکات بھی ناقابل قبول تھیں۔

” صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ انڈا کھا لو۔“

پاپا نے ٹرین کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ ایک پھیری والا انڈے بیچ رہا تھا۔ ابلے ہوئے انڈوں کو سرخ رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔

”کیا انہیں بھی بھوک لگی ہوئی تھی؟ یا ان کے دل میں وہ سرخ کپڑا دیکھ کر ابال آ رہے تھے؟“
”نہیں۔“ رافعہ کی آواز گٹار کے ٹوٹے ہوئے تار کی طرح چیخ رہی تھی۔

پاپا نے شرمندہ ہو کر منہ جھکا لیا بالکل اسی طرح جب رافعہ نے بتایا تھا کہ وہ انہیں چھوڑ کر ماں کے پاس جانا چاہتی ہے۔ پاپا نے ایک کوک اور دودھ کا ایک ڈبہ خریدا، لیکن اس نے دونوں میں سے کچھ پیا اور نہ ہی اسے پیش کیا۔ بس انہیں پکڑ کر بیٹھا رہا۔

***

پاپا عورتوں کے کپڑے کیوں پہنتے تھے؟ اسکرٹ، میک اپ اور نوکدار جوتے پہن کر سڑک پر چلنا انتہائی برا محسوس ہوتا تھا۔ وہ راتوں کو ایسے کپڑے پہن کر باہر کیوں جاتے تھے؟ کبھی کبھی اسے لگتا کہ وہ ایک حقیقی عورت سے زیادہ خوبصورت ہیں، لیکن ساتھ ہی مردانہ جسم کے خد و خال کپڑوں سے ظاہر ہوتے تو اسے یہ سب بہت عجیب لگتا۔ کیا وہ عورت بننا چاہتے تھے؟ کیا انہیں مردانہ پن اچھا نہیں لگتا تھا۔ رافعہ یہ سب دیکھ کر قدرت کی بے رحمی پر لعنتیں بھیجتی تھی، جس نے اتنے خوبصورت انسان پر اپنی پسند کی لیپا پوتی کر دی۔

مرد بنا کر اس میں روح عورت کی ڈال دی۔ آخر اس میں کیا مصلحت تھی؟ قدرت نے کیا سوچ کر یہ کج روی تیار کی تھی؟ کیا قدرت نے مردانہ جسم بناتے وقت اس کی مرضی جان لی تھی؟ کیا اس نے انسان بناتے وقت اس کی پسند نا پسند پر دھیان دیا تھا؟ ممکن نہیں کہ اس نے یہ تردد کیا ہو کیونکہ قدرت معاملہ فہم اور صاحب شعور نہیں ہوتی۔

دو دن کے سفر کے بعد وہ ماں کے شہر پہنچے۔ باپ نے دو دن سے کپڑے بدلے تھے اور نہ ہی شیو بنائی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بال اس کے رخساروں پر نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ اس وقت ایک بھیگا ہوا چوہا لگ رہا تھا جو سردی سے بچنے کے لیے اپنے بال کھڑے کر لیتا ہے۔

”ادھر آ کر میرے پاس بیٹھ جاؤ۔“ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن خاموش ہو گیا۔
”پاپا۔“
”جی؟“
دونوں پھر خاموش ہو گئے۔

وہ بس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ ان سے پوچھنا چاہتی تھی، ”کیا آپ عورتوں کا لباس پہنے بغیر نہیں رہ سکتے؟ کاش آپ عام مردوں کی طرح رہتے، دوسرے والدوں کی طرح، ایک عام والد۔“

”کوئی بات نہیں۔“

بس میں وہ سامنے بیٹھی اس لڑکی کو چوری چوری دیکھ رہا تھا جس نے سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ رافعہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ اپنے باپ کی نظریں پکڑ کر کہیں اور چپکا سکتی۔

”پاپا؟“
اس نے رافعہ کی طرف دیکھنے سے پہلے خالی نظروں سے سامنے دیکھا۔
”جی بیٹے؟“
”آپ کتنے سال کے ہیں؟“
”کیا؟“
”آپ کی عمر کتنی ہے پاپا؟“
اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”انتالیس۔“
”اور ماں؟“
”سینتیس۔ مجھ سے دو سال چھوٹی۔“
”تو پھر میری عمر کتنی ہے؟“

وہ خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔ رافعہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ ان کہے الفاظ کو سننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ پاگل نہیں تھے۔ پاپا پاگل نہیں تھے۔ وہ یقیناً پاگل نہیں تھے۔

”تم چھٹی جماعت میں ہو، اس کا مطلب ہے کہ گیارہ سال کے۔“
پھر وہ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ اس نے لڑکی کے اسکرٹ کو گھورنا چھوڑ دیا۔ وہ پاگل نہیں تھا۔
٭٭٭

اس نے دروازے پر دستک دی۔ رافعہ سوچ رہی تھی کہ دروازہ کھلتے ہی ماں اس کے سامنے ہوگی۔ وہ واپس بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اگر یہ کوئی فلم ہوتی تو رافعہ اپنے والد کو دھکیلتی دروازے کے اندر گھس کر ماما پکارتی ماں کے ساتھ لپٹ جاتی۔ کیا یہی حقیقت تھی؟

جھوٹ۔ یہ سب جھوٹ تھا۔ اسے اپنی ماں کا چہرہ بھی یاد نہ تھا۔ وہ کسے پکارتی۔

صحن کے اس پار ایک دروازہ کھلا، اور انہوں نے ڈھیلی چپلوں میں پاؤں ڈالے جانے کی آواز سنی۔ آواز قریب سے قریب تر ہوتی گئی۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹی اور اپنے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔

”کیا ہوا؟“
دروازہ کھلا تو سامنے اس کی ماں نہیں ایک مرد کھڑا تھا۔
”نینا کدھر ہے؟ میں بیٹی کو اس سے ملانے لایا ہوں۔“ اس کے والد نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
”تم کون ہو؟ میں تمہیں نہیں جانتا۔“

گوشت کے اس پہاڑ نے انہیں نیچے سے اوپر تک دیکھا اور اپنا سر کھجانے لگا۔ پھر وہ واپس مڑا اور انہیں ہاتھ کے اشارے سے پیچھے آنے کا کہا۔

کالا موٹا کر نجی آنکھوں والا آدمی، عمر کوئی چالیس برس کی ہو گی۔ موٹے موٹے کالے ہونٹ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، تنگ ما تھا، بال الجھے ہوئے، گال پھولے، دانتوں کی ریخوں میں پان کا بھورا میل، تازہ شیو کے باوجود ٹھوڑی پر کہیں بال رہ گئے تھے، اسے دیکھ کر عجب کراہت سی محسوس ہوتی تھی۔ اس کے بھیانک طور پر جھکے ہوئے پیٹ کے نیچے سے ایک ناگوار بو رینگتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ ہر بار جب وہ ہاتھ اوپر اٹھا کر سر پر کھجلی کرتا تو سڑے ہوئے گوشت کی بدبو پورے کمرے میں پھیل جاتی۔ کمرے میں بیٹھتے ہی وہ فون پر مصروف ہو گیا۔ فارغ ہوا تو کہنے لگا

”اس نے مجھے تمہارے بارے میں سب کچھ بتایا تھا۔“
”اوہ؟“ رافعہ کے والد نے کہا۔

موٹے آدمی نے بلی کی طرح آنکھیں موند لیں اور مسکرایا۔ اپنے والد کو اتنی بایستگی و شائستگی سے بیٹھے ہوئے دیکھ کروہ حیران ہو رہی تھی۔

”ماں نے اس کے بارے میں کیا کہا ہو گا؟“
آدمی کی مسکراہٹ دونوں کی بے بسی دیکھ کر بڑھتی جا رہی تھی۔

”میں تمہیں سچ بتاؤں، وہ تمہیں ناپسند کرتی ہے۔ ایک ایسے آدمی کو جو مرد ہو کر زنانہ حرکتیں کرتا ہو، کوئی عورت اس کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہے؟“ اس نے سگریٹ اس کے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ابا کا چہرہ تڑپ اٹھا۔ لیکن یہ غصے سے سخت نہیں تھا بلکہ خوف سے سفید تھا، جیسے وہ اچانک برف کے پانی میں ڈوب گیا ہو۔

”ایسے مرد اپنے ساتھی کے لیے شرمندگی کا باعث ہوتے ہیں۔ تم جو کچھ کرتے ہو مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، لیکن تم میرے گھر کیوں آئے ہو؟ صرف اس لیے کہ تمہاری سابقہ بیوی جو کہ کبھی تمہاری بیوی تھی ہی نہیں، اب میرے پاس ہے۔“ وہ یوں ہنسا جیسے ابھی کوئی مضحکہ خیز واقعہ پیش آیا ہو۔

”اگر تم مردانہ اعضا کے ساتھ پیدا ہوئے ہو، تو اس طرح کیوں رہتے ہو؟ تم خوبصورت ہو، اس لیے میں شرط لگا سکتا ہوں کہ تم کو خصوصی پیار ملتا ہو گا۔ اور تمہیں بھی لگتا ہو گا کہ تم ایک عورت ہو صرف اس لیے کہ کسی نے تمہارے ساتھ کچھ کیا تو پھر۔ جانے دو ۔

یہ سب مذاق تھا۔ ”

جب آدمی نے ”کچھ کیا“ کے الفاظ کہے تو اس نے اپنی ہتھیلی کو گول بنا کر اس میں دوسرے ہاتھ کی انگلی کو بار بار گھمایا۔ رافعہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی کہ اس اشارے کا کیا مطلب ہے؟ پھر اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ جس نے اس کو کھینچ کر اپنے ساتھ چمٹا لیا۔

”اس موضوع کو بدل دو ۔ میری بیٹی سن رہی ہے۔“
”اپنی بیٹی کے سامنے یہ بات کرتے شرم محسوس ہوتی ہوگی؟ اگر تم بہت شرمندہ ہو تو ایسا کیوں کرتے ہو؟“
اس شخص کی آنکھیں دشمنی سے چمک اٹھیں۔

رافعہ کے والد نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا ”چلو، ہم واپس چلیں۔ یہ غیر مہذب آدمی ہے۔ جب تمہاری ماں گھر ہوگی، پھر آئیں گے۔“

آواز میں تناؤ اور سختی محسوس کر کے وہ چل پڑی۔

اس سے پہلے کہ وہ دروازے تک پہنچ پاتے آدمی نے آگے بڑھ کر انہیں روک لیا۔ ”تمہیں لگتا ہے کہ تم میرے ساتھ بدتمیزی کر کے بھاگ جاؤ گے؟“ باپ نے اس کی طرف دیکھے بغیر راستہ بدل لیا۔ رافعہ نے اسے آگے بڑھتے دیکھ کر کندھے سے اپنا بیگ اتار کر مضبوطی سے پکڑ لیا۔

”تم مجھے اپنے بیگ سے مارو گی؟ مجھے لگتا ہے تم کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ تمہارا والد بدکار ہے؟ کیا تمہیں اس جنسی کج رو سے نفرت نہیں؟“

وہ چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھی کہ اسے اس کج روی سے نفرت ہے۔ اس نے آنسو بھری آنکھوں سے باپ کی طرف دیکھا۔ وہ سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔

”نہیں! میرے والد بدکار نہیں!“ وہ روتے ہوئے چلائی۔

”اوہ، وہ بدکار نہیں؟ پھر تم اس مرد کو کیا کہو گی جو اسکرٹ پہنتا ہے اور ہر رات دوسرے مردوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے؟“

وہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ نابینا ہوتی اور اس بدبو دار، بے ڈھنگے آدمی کو اسکرٹ پہننے کی نقل کرتے ہوئے، ادھر ادھر گھومتے نہ دیکھ پاتی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، باپ نے اس کے چہرے پر ایک گھونسا جڑ دیا۔

” ب چ، کتیا کے بچے۔“ آدمی نے اپنا گال سہلاتے ہوئے گالی دی۔

رافعہ اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ موٹا آدمی اس کی سوچ سے زیادہ پھرتیلا تھا۔ اس نے ایک ٹانگ اونچی کر کے اس کے باپ کی پسلیوں میں دے ماری۔ باپ اپنا سینہ پکڑ کر فرش پر گر پڑا۔

”ہیجڑے تم کیا لڑو گے۔ مرد بنو اور اس طرح لڑو۔“ اس نے غلیظ گالیاں بکتے ہوئے لاتوں، مکوں اور ٹھڈوں کی بارش کر دی۔

”بچاؤ!“ وہ چلائی اور اپنے بیگ سے اس موٹے کو مارنے لگی۔ جس نے اسے بھی ایک تھپڑ جڑ دیا اور وہ کمرے کے کونے میں جا گری۔

وہ بھاگتی ہوئی واپس آئی اور زمین پر پڑے اپنے والد کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس کے ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔

آدمی کی لاتیں سخت ہوتی گئیں اور والد گول مول گیند بن کر چلاتا رہا۔ جب اس شخص کا پاؤں چہرے سے بہنے والے خون سے سرخ ہو گیا تو وہ سانس لینے کے لیے رکا اور کولہوں پر ہاتھ رکھ کر کمرے کا جائزہ لینے لگا جس میں خون کے دھبے جا بجا نظر آرہے تھے۔

سرخ رنگ کا خون۔ اسے سرخ رنگ سے نفرت تھی۔ جیسے ہی موٹے نے والد کے پیٹ میں دوبارہ لات ماری، اس نے کمزور سی آنکھیں کھولیں اور رافعہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کا چہرہ خون آلود تھا۔ یوں لگتا تھا اس نے پسندیدہ سرخ اسکرٹ اپنے سر پر پہن رکھا ہے۔ رافعہ ایک قدم پیچھے ہٹی۔ اس نے اسے سرخ لپ اسٹک اور وگ میں گھومتے ہوئے دیکھا۔ وہ اسے سر اٹھائے کلاس فیلوز کے گھیرے میں چلتا دکھائی دیا۔ تمام لڑکیاں اسے ’ہجڑا، ہجڑا‘ پکار رہی تھیں۔

وہ بھاگ اٹھی۔
”نہیں، میں ایک بدکار ہیجڑے کی بیٹی بننے کے بجائے مرنا پسند کروں گی۔“
باپ کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
”نہیں، نہیں، اس کا والد بدکار نہیں۔ وہ کسی بدکردار کی بیٹی نہیں۔“
وہ بھاگتے بھاگتے گر پڑی۔ دور غروب ہوتا ہوا سورج سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا۔
٭٭٭

ایک ایمبولینس چیخ کر پاس سے گزری۔ محلے میں شور پھیل گیا کہ کیا ہوا ہے؟ خون میں لت پت شخص کون ہے؟ رافعہ سڑک پر پڑی تھی۔ اس نے ان کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔ لوگوں میں سے ایک نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور پوچھا کہ یہ کس کی بیٹی ہے؟ وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی۔ تبھی اندھیرے سے ایک سایہ نمودار ہوا۔

”تم بہت بڑی ہو گئی ہو۔“
”ماں!“
اس نے خود کو ماں کی بانہوں میں دے دیا۔ آخر کار اسے اپنی ماں مل گئی۔

اوہ، تو ماں اس طرح کی ہوتی ہے! وہ ماں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ ماں اس سے زیادہ پتلی تھی جتنا اس نے سوچا تھا۔ کئی بار وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو غور سے دیکھ کر سوچتی تھی کہ اس کے چہرے میں ماں کی جھلک کہاں کہاں پائی جاتی ہے۔ اب بھی وہ یہی سوچ رہی تھی۔ کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ شاید انگلیاں؟ وہ رافعہ کو ایمرجنسی روم میں لائی۔ چاکلیٹ دودھ کا ایک پیکٹ دیا۔ ماں کچھ نہیں بول رہی تھی۔ وہ اسے دکھانا چاہتی تھی کہ کتنی بڑی ہو گئی ہے، لیکن ماں اس کی طرف دیکھنے کی بجائے کوریڈور پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔

اس نے دودھ کا ایک گھونٹ لیا۔ وہ اب اپنی ماں کے ساتھ رہے گی۔ اسے اب لوگوں کا خوف نہیں تھا اور نہ ہیجڑے باپ کی وجہ سے طعنوں کا ۔ ماں اس بدبودار آدمی کے ساتھ رہتی تھی۔ اسے بھی اس کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا، لیکن یہ ٹھیک تھا۔ کم از کم وہ اس قسم کا باپ نہیں ہو گا جو سرخ اسکرٹ اور لال لپ اسٹک لگا کر دوسرے مردوں کی تلاش میں ہر رات سڑکوں پر گھومتا تھا۔

رافعہ کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ پانی میں غوطے کھا رہی تھی اور دفعتاً اس کے پاؤں زمیں پر لگ گئے ہیں۔ وہ اپنی ماں کو بار بار دیکھ رہی تھی۔ اب اس کے پاس رہنے کے لیے ماں تھی اور ایک نیا باپ۔ جیسے جیسے وہ میٹھا دودھ پی رہی تھی اسے اپنے اندر تازگی کا احساس بڑھتا محسوس ہو رہا تھا۔

”تو تمہارے والد نے نوکری چھوڑ دی؟“ اس کی ماں نے پوچھا۔
”جی ہاں۔“
”اسے برطرف نہیں کیا گیا؟“
رافعہ کو اس سوال پر حیرانی ہوئی۔
”ماں اب میں کس اسکول میں جاؤں گی؟“
وہ ٹیچرز سے نہیں لڑے گی۔ اگر انہوں نے کھیلوں کے دن سرخ اسکرٹ پہننے کو کہا تو وہ بھی پہن لے گی۔
لیکن اس کی ماں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ رافعہ نے بقیہ دودھ کا پیکٹ زمیں پر رکھ دیا۔
”ماں؟“
تبھی ماں نے رافعہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں خوفناک حد تک ویران تھیں۔
”تم میرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔“
”کیوں نہیں؟ میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ میں ٹیچرز سے نہیں لڑوں گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔“
ماں کے سپاٹ چہرے پر سیاہی بکھر گئی تھی۔
”کیا آپ کو پیسوں کی فکر ہے؟“ رافعہ نے التجا کی۔ ”میں پارٹ ٹائم جاب کر لوں گی!“
رافعہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ لیکن ماں ان کو صاف کرنے کی بجائے خلا میں گھور رہی تھی۔
”ماں!“ وہ بھاگ کر ماں کے بازو سے لپٹ گئی اور منتیں شروع کر دیں۔
”تم۔ “ ماں بھاری لڑکھڑاتی آواز میں بول رہی تھی۔ ”تم میری بیٹی نہیں ہو۔“
رافعہ مبہوت ہو گئی۔
”میں نہیں جانتی تم کون ہو؟ جس دن تمہارے والد تمہیں گھر لائے، میں اس دن چلی آئی تھی۔“

وہ ماں کا بازو چھوڑ کر بھاگ اٹھی۔ اس کا پاؤں دودھ کے پیکٹ پر پڑا اور چاکلیٹ دودھ فرش پر بکھر گیا۔ ڈارک چاکلیٹ جیسے کالا، جما ہوا خون جو رافعہ کی رگوں میں بہنا بھول گیا تھا۔

٭٭٭

ایمرجنسی روم خالی تھا۔ اس کی ماں نے رافعہ کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو، وہ تمہارا باپ ہے۔ یہ اب تمہاری ذمہ داری ہے۔ ماں کو جواب دینے کی بجائے۔ اس نے اپنے باپ کے زخمی سوجے منہ پر نیلے نشانات کی طرف دیکھا۔ اب وہ اسکرٹ کی طرح سرخ رنگ کا نہیں تھا۔

”وہ کون تھی؟“ اس کا باپ کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس کا جواب شاید کسی کو معلوم نہ تھا۔ ماں کو بھی نہیں، وہ ماں جو ماں ہی نہیں تھی۔ جو عورت اس کی ماں نہیں تھی اس نے اسے رات اپنے گھر گزارنے کی پیشکش کی لیکن رافعہ نے انکار کر دیا۔ وہ اپنے باپ کی بیٹی تھی، ماں کی نہیں۔

”رافعہ۔“ اس نے نیند میں اپنے باپ کی آواز سنی لیکن آنکھیں نہیں کھولیں۔ نہ ہی اس نے سر اٹھایا۔ وہ یہ نہیں سننا چاہتی تھی کہ وہ معذرت خواہ ہے یا سرخ اسکرٹ نہ پہننے کا وعدہ کرتا ہے۔ معافی اسے مانگنی تھی۔ لیکن اس غلطی پر معذرت کرنے کے لیے اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔ وہ بہت پشیمان تھی اور اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے اس کے پاس لیٹی رہی۔ باپ نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ ”وہ اسے یہاں کیوں لائے تھے۔

انہوں نے کیوں نہیں بتایا کہ وہ ان کی حقیقی بیٹی نہیں؟“ وہ دکھ اور افسوس میں بڑبڑا رہی تھی۔ شاید وہ اسے کھونا نہیں چاہتے تھے، وہ ان کے وجود کا حصہ بن چکی تھی۔ اب وہ لازم و ملزوم تھے۔ جب اس نے رافعہ کا ننھا ہاتھ پکڑ کر اسے چلنا سکھایا ہو گا تو ہر کوئی اس پر طنز کرتا ہو گا۔ ہر کوئی کہتا ہو گا کہ اسے اپنے ساتھ نہ رکھو۔ اس نے بے ماں بچی کی ماں بن کر شاید وہ سکوں محسوس کیا ہو جو کہیں اور نہ ملتا ہو۔ شاید رافعہ اس کا ریڈ اسکرٹ تھی۔ اس کی سب سے خوبصورت اور سب سے قیمتی چیز۔ اس لیے وہ اس کی خواہش پر اپنے رقیب کے گھر اتنی دور آ گیا تھا۔ ٓجو بیوی اسے چھوڑ گئی بیٹی کی خواہش وہ اس کے گھر بھی پہنچ گیا۔

***
”پاپا، ادھر!“

رافعہ ہاتھ لہرا کر انہیں اپنی طرف بلا رہی تھی۔ پاپا ہاتھ میں گلدستہ پکڑے بھیڑ میں راستے بناتے اس کی طرف ہی آ رہے تھے۔ آج سکول میں گریجویشن کی تقریب تھی۔

”معذرت خواہ ہوں، ٹریفک بہت زیادہ تھی اس لیے مجھے دیر ہو گئی۔“
اس نے پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔ ہاتھ کا پچھلا حصہ چہرے پر موجود پوڈر کی وجہ سے سفید ہو گیا۔
”یہ میرے والد ہیں۔“
”السلام و علیکم، آپ کیسے ہیں؟“

پسینے میں شرابور دو چھوٹے بالوں والی لڑکیوں نے، جو لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں جیسی لگ رہی تھیں، اس کے سامنے جھک کر سلام کیا۔

”یہ تمہاری دوست ہوں گی؟“
”جی ہاں۔ وہ تائکوان ڈو کی کلاس لیتی ہے، اور وہ باکسنگ کی۔ آپ کو دونوں پہلوان ہی لگتی ہوں گی۔“

رافعہ نے مذاق میں اپنے دوستوں کے سر پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے تعارف کروایا۔ جو اباً باکسر نے رافعہ کی پسلیوں میں ایک گھونسا رسید کر دیا۔ اگرچہ وہ دوستانہ لڑائی تھی لیکن مکا اتنے زور کا تھا کہ ٹھاہ کی آواز کے ساتھ پسلیوں سے ٹکرایا۔ رافعہ ہنستے ہوئے اپنے پہلو کو دبانے لگی۔ پاپا نے دیکھا کہ رافعہ اور اس کی دوست لڑکوں کی طرح گھونسے اور لاتیں مار رہے تھیں۔ اس نے سرخ گلدستہ رافعہ کے حوالے کیا۔ چار سال پہلے کے اس دن کے بعد ، جب بھی رافعہ کوئی لال چیز دیکھتی تو اس کی آنکھوں کے سامنے باپ کا خون آلودہ چہرہ آ جاتا اور وہ شرمندہ ہونے کی بجائے دکھ اور پچھتاوے کا شکار ہو جاتی۔

”میری پیاری بیٹی کو مبارک ہو۔“

پھول پکڑاتے ہوئے باپ نے اسے گلے سے لگا لیا۔ وہ لمبی ہو گئی تھی اور مڈل سکول میں تائیکوان ڈو کھیلنے سے انتہائی مضبوط بھی۔ اس نے زور سے پاپا سے معانقہ کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

”آؤ! لنچ کرتے ہیں۔ کیا آپ ہمارے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گئیں؟“

”نہیں شکریہ۔ ہمارے والدین انتظار کر رہے ہیں،“ باکسر لڑکی نے جھک کر جواب دیا۔ مضبوط جسم والی کی مسکراہٹ حیرت انگیز طور پر نازک تھی۔ دونوں لڑکیوں نے الوداع کیا اور ہجوم میں غائب ہو گئیں۔

”تمہیں ضرور بھوک لگی ہوگی۔“

وہ بھیڑ میں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے باہر کی طرف چل پڑے۔ بھاری میک اپ اور سرخ اسکرٹ میں ایک عورت راستے میں کھڑی تصویریں لے رہی تھی۔ اس نے ایک نظر اس کے اسکرٹ پر ڈالی اور پیچھے مڑ کر رافعہ کی طرف دیکھا۔ جو اباً رافعہ بھی دائیں آنکھ دبا کے مسکرانے لگی۔ مسکراہٹ اس کے چہرے پر بھی بکھر گئی۔

”جلدی چلو!“ عورت کے پاس سے راستہ بناتے ہوئے پاپا کہنے لگے

رافعہ کو ان کا سرخ اسکرٹ پہننا اب بھی اچھا نہیں لگتا تھا لیکن اب وہ یہ نہیں سوچتی تھی کہ وہ جنونی دیوانے ہیں۔ جب وہ عورت کے پاس سے گزری تو رافعہ نے اس کے لباس کو اچھی طرح دیکھا۔ پاپا کی سالگرہ آنے والی تھی، اور اسے کوئی تحفہ خریدنا تھا۔ پچھلے چار برسوں میں پاپا کے سیدھے کندھے جھک گئے تھے، جب وہ مسکراتے تو اس کی آنکھوں میں جھریاں بھی پڑ جاتی تھیں، لیکن جب وہ وہ سرخ اسکرٹ پہنتے، تو بہار کی بارش سے بھیگے ہوئے پھول کی طرح کھل اٹھتے تھے۔

پاپ نے اپنا بازو رافعہ کے گرد گھمایا تو اس نے بھی ان کی پتلی کمر کو پکڑ لیا۔ جب وہ ہجوم سے گزر رہے تھے، تو ان کے جڑے ہوئے کندھے دوسرے لوگوں سے زیادہ مضبوط تھے۔ وہ ایک دوسرے کا حصہ بن گئے، جس سے کوئی الگ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔

٭٭٭

دو دن بعد وہ اسی سٹاپ پر بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ بس آئی تو اس میں سوار ہو گئے۔ رافعہ پسینے سے شرابور تھی اور اپنی پیٹھ پر لمبا سا بیگ اٹھائے ہوئے تھی۔ اپنا بیگ اس نے ساتھ والی سیٹ پر رکھ دیا۔ بس میں بیٹھتے ہی اسے سڑے ہوئے گوشت کی بدبو محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی تک جوش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ساتھ والی سیٹ پر پاپا لپ سٹک لگائے، سرخ سکرٹ پہنے بیٹھے تھے۔ آج وہ دونوں بہت خوش تھے اس نے تیکوانڈو کی کلاس کامیابی سے پاس کر لی تھی۔ چاہتی تو وہ یہ تھی کہ پاپا بھی یہ سیکھ لیتے لیکن ان کو ایسے کاموں سے زیادہ سرخ کپڑوں اور میک اپ میں دلچسپی تھی۔ وہ تو اپنی خواہشات سے خلاصی پانے کے لیے اپنی رجولیت بھی قربان کر چکے تھے۔

آج کی کامیابی کے بعد استاد نے اسے لکڑی کی وہ تلوار دی تھی جس سے اس نے پچھلے چار سالوں میں کھیل کی مشق کی تھی۔ وہی اس کے بیک پیک میں موجود تھی۔ اس نے سفید کپڑے میں لپٹی لکڑی کی تلوار کے ہینڈل کو احتیاط سے دیکھا اور اسے ساتھ والی سیٹ پر رکھ دیا۔ سیٹ پر بیٹھ کر وہ استاد کے الفاظ یاد کرنے لگی ”اگرچہ یہ لکڑی کی ہے، لیکن یہ ایک حقیقی تلوار کی طرح مہلک ہو سکتی ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کسی شخص کو کہاں مارتے ہیں۔

اگر لکڑی کی یہ تلوار کسی کی گردن کے پچھلے حصے پر ماری جائے تو وہ مر بھی سکتا ہے۔“ لیکن وہ صرف اتنا ہی واپس کرنے والی تھی جتنا اس نے دیا تھا۔ وہ لکڑی نہیں دھات کے بلیڈ کے چمکتے کنارے کا تصور کر رہی تھی جس پر خون میں ڈھکے چہرے کی تصویر ابھر رہی تھی۔ کہیں دور وہ زندہ سرخ خون کو قطرہ قطرہ گرتا محسوس کر رہی تھی۔ سرخ خون جو پاپا کے اسکرٹ اور ہونٹوں پر لگی ہوئی لپ سٹک کے رنگ کا تھا۔ جو گرم گرم بہتا فرش پر پھیلتا جا رہا تھا۔

اس کا بدلہ۔ ایک بہت ہی منصفانہ۔

سید محمد زاہد

Korean writer Kim Bi کی کہانی سے ماخوذ

سید محمد زاہد

ڈاکٹر سید محمد زاہد اردو کالم نگار، بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام موجودہ مسائل، مذہب، جنس اور طاقت کی سیاست پر مرکوز ہے۔ وہ ایک پریکٹس کرنے والے طبی ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی این جی اوز کے ساتھ کام کیا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button