حوادث ہم سفر اپنے تلاطم ہم عناں اپنا
زمانہ لوٹ سکتا ہے تو لوٹے کارواں اپنا
نسیم صبح سے کیا ٹوٹتا خواب گراں اپنا
کوئی نادان بجلی چھو گئی ہے آشیاں اپنا
ہمیں بھی دیکھ لو آثار منزل دیکھنے والو
کبھی ہم نے بھی دیکھا تھا غبار کارواں اپنا
مزاج حسن پر کیا کیا گزرتا ہے گراں پھر بھی
کسی کو آ ہی جاتا ہے خیال نا گہاں اپنا
ازل سے کر رہی ہے زندگانی تجربے لیکن
زمانہ آج تک سمجھا نہیں سود و زیاں اپنا
جمال دوست کو پیہم بکھرنا ہے سنورنا ہے
محبت نے اٹھایا ہے ابھی پردہ کہاں اپنا
ہمیشہ شمع بھڑکے گی سدا پیمانہ چھلکے گا
تری محفل میں ہم چھوڑ آئے ہیں جوش بیاں اپنا
قابل اجمیری