بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا
جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا
بے پردگی بھی چاہ کا ہوتا ہے لازمہ
کھلتا ہی ہے ندان یہ اسرار عشق کا
زندانی سینکڑوں مرے آگے رہا ہوئے
چھوٹا نہ میں ہی تھا جو گنہگار عشق کا
خواہان مرگ میں ہی ہوا ہوں مگر نیا
جی بیچے ہی پھرے ہے خریدار عشق کا
منصور نے جو سر کو کٹایا تو کیا ہوا
ہر سر کہیں ہوا ہے سزاوار عشق کا
جاتا وہی سنا ہمہ حسرت جہان سے
ہوتا ہے جس کسو سے بہت پیار عشق کا
پھر بعد میرے آج تلک سر نہیں بکا
اک عمر سے کساد ہے بازار عشق کا
لگ جاوے دل کہیں تو اسے جی میں اپنے رکھ
رکھتا نہیں شگون کچھ اظہار عشق کا
چھوٹا جو مر کے قید عبارات میں پھنسا
القصہ کیا رہا ہو گرفتار عشق کا
شکل ہے عمر کاٹنی تلوار کے تلے
سر میں خیال گوکہ رکھیں یار عشق کا
واں رستموں کے دعوے کو دیکھا ہے ہوتے قطع
پورا جہاں لگا ہے کوئی وار عشق کا
کھوئے رہا نہ جان کو ناآزمودہ کار
ہوتا نہ میر کاش طلبگار عشق کا
میر تقی میر