پھولوں کی اور چاند ستاروں کی کیا کمی
آنکھوں میں نور ہو تو ستاروں کی کیا کمی
تجھ کو چمن سے کیا ہے ، تُو آئینہ دیکھ لے
جو خود ہو پھول ،اس کو بہاروں کی کیا کمی
تجھ حسن کے لئے تو خدا بھی تڑپ اٹھے
تجھ کو غموں میں غم کے سہاروں کی کیا کمی
آنسو نہیں خلا میں محبت کے پھول پھینک
اب آسماں کو چاند ستاروں کی کیا کمی
"چاروں طرف سے آتشِ دوزخ ہو جلوہ گر”
حاسد کی زندگی میں شراروں کی کیا کمی
تُو بن سنور کے نصف گھڑی کے لیے نکل
دنیا میں حسن و عشق کے ماروں کی کیا کمی
یہ کشتیاں ہیں جن کو طلب ساحلوں کی ہے
دریاؤں کو عدیم کناروں کی کیا کمی
عدیم ہاشمی