ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب
رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب
پھولوں میں چھپا بیٹھا ہوں اک زخم کی صورت
کھا جاتی ہے دھوکا مری اپنی بھی نظر اب
اس طرح اٹھا دہ سے یقیں اہل جہاں کا
افواہ نظر آتی ہے سچی بھی خبر اب
جو پرسش غم کے لئے آ جائے غنیمت
کشکول کی مانند کھلا رہتا ہے در اب
نظروں میں ابھر آتا ہے ہر ڈوبتا تارا
اس طرح گزرتی ہے مرے دل سے سحر اب
دنیا کو ہے اب کانچ کے ٹکڑوں کی ضرورت
کس کے لئے دریا سے نکالو گے گہر اب
منزل سے بہت دور نکل آیا ہوں باقیؔ
بھٹکا ہوا رہرو ہی کوئی آئے ادھر اب
باقی صدیقی