” گم شدہ سائے“ کی رونمائی اور مشاعرہ
معروف افسانہ نگار روبینہ فیصل کی کتاب
کینیڈا میں مقیم معروف افسانہ نگار روبینہ فیصل کی کتاب ” گم شدہ سائے“ کی رونمائی اور مشاعرہ
رپورٹ :۔ امبرین سعید شارجہ
متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ علم و ادب کے حوالے سے اپنی منفرد حثیت رکھتا ہے شارجہ کا ماحول ، رہن سہن میں اس کے اثرات نمایاں ہیں خصوصاً یہاں موجود لائبریریوں کی تعداد اور میوزیم دیکھنے کے قابل ہیں دنیا کا تیسرا بڑا کتاب فیسٹیول بھی شارجہ میں ہی منعقد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے ادیبوں اور شعراءکو مدعو کیا جاتا ہے اور تمام زبانوں میں کتابوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے اردو متحدہ عرب امارات کی تیسری بڑی زبان کا درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اردو سمجھنے ، بولنے اور پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کہ ادبی کمیٹی اردو کی فروغ میں فعال ہے اور اس کی ترویج و ترقی کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے سلیمان جاذب جو کہ اس ادبی کمیٹی کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیں ان کی سربراہی میں یہاں مشاعروں و ادبی پروگراموں کی کثرت دیکھنے میں آئی ہے جو اس سے قبل یہاں بالکل نا ہونے کے برابر تھی جب سے ادبی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا ہے کئی بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا جا چکا ہے جس میں” جشن عطاءالحق قاسمی“ اور” جشن آزادی مشاعرہ “نمایاں ہیں حال ہی میں ادبی کمیٹی نے کینیڈا میں مقیم معروف افسانہ نگار ، کالم نگار اور انکر پرسن محترمہ روبینہ فیصل کے ساتھ اک شام کا انعقاد کیا جس میں روبینہ فیصل کی نئی کتاب ”گم شدہ سائے “ کی تقریب رونمائی کی گئی تقریب کا باقاعدہ آغاز جناب سید عرفان شاہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور جناب مقصود تبسم نے بحضور سرور کونین ﷺ ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی پہلے حصے میں محترمہ روبینہ فیصل کی کتاب ”گم شدہ سائے “ پر تفصیلی گفتگو کی گئی جبکہ دوسرے حصے میں مشاعرہ منعقد کیا گیا جس مین متحدہ عرب امارات کے تمام معروف شعرا ءنے شرکت کی ۔ محترمہ انعم عادل صاحبہ نے پہلے حصے کی نظامت کے فرائض سنبھالے اور گم شدہ سائے پر اظیار خیال کرتے ہوئے کہا کہ روبینہ فیصل کے افسانے حقیقت سے بہت قریب ہیں اور ان کی کہانیوں میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ روبینہ فیصل نے دیارِ غیر میں ہجرت کرنے والے افراد کی زندگیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا عکس نمایاں ہے ۔ پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کے جنرل سیکرٹری جناب چوہدری افتخار نے محترمہ روبینہ فیصل کا پاکستان سوشل سنٹر شارجہ میں آمد پر شکریہ ادا کیا اور کتا ب کی رونمائی پر مبارک باد بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ روبینہ فیصل کے کتاب ” گم شدہ سائے“افسانوں کی ایک منفرد کتاب ہے جس میں موجود کہانیاں حقیقت سے قریب ہیں بعد ازاں معروف سماجی شخصیت اور نقیب شرافت علی شاہ نے کہا کہ روبینہ فیصل کے افسانے پڑھنے کے بعد یہ ایسا لگتا ہے جیسے تمام افسانے نہیں بلکہ حقیقت ہے خصوصا ً ان کی کہانی پڑھنے والے کو باندھ کر رکھتی ہے ابتدا سے اختتام تک قاری کہانی میں اس قدر محو ہو جاتا ہے کہ کہانی مکمل کئے بنا چین نہیں پاتا ”شیری کینیڈا میں “محبت کی آخری کہانی “ اور ”ایک ڈائری میں گم گھر کا سارا سامان“ بہت ہی عمدہ افسانے ہیں ۔ ”گم شدہ سائے “ پر گفتگو کرتے ہوئے احیاءالاسلام بھوج پوری نے کہا کہ ” گم شدہ سائے “ کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ روبینہ فیصل کا مشاہدہ اور تحقیق مین بہت وسعت ہے کتاب میں شامل تمام افسانے نا صرف منفرد نوعیت کے ہیں بلکہ ہر افسانے کی کہانی جداگانہ اور زبان الگ ہے تمام کردار جاندار اور ایک خاص ماحول سے نسبت رکھتے ہیں قاری روبینہ فیصل کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کہانی میں گرفت میں مکمل طور پر رہتا ہے لیکن جیسے ہی دوسرا افسانہ شروع کرتا ہے تو پہلی کہانی پر دوسری کہانی حاوی ہو جاتی ہے اور گرفت مزید مضبوط ہو جاتی ہے قاری کتاب کے اختتام تک ایک سرور کی سی کیفیت میں رہتا ہے
معروف شاعر اور ادبی کمیٹی کے سربراہ سلیمان جاذب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کا افسانہ سماجی ناہمواریوں معاشی اور معاشرتی مجبوریوں، نفسی ونفسیاتی مسائل اور گلوبلائزیشن کی حشر سامانیوں سمیت ان گنت موضوعات کے بحران پر مشتمل ہے۔ دور جدید کے انسانوں کو جو چیلجز درپیش ہیں اس کے اثرات اس صدی کے تخلیق ہونے والے ادب میں نظرآتے ہیں روبینہ فیصل چونکہ اکیسویں صدی کی مصنفہ ہیں اس لئے ان کے فن پاروں میں یہ نمایاں نظرآتے ہیں۔
روبینہ فیصل کی تحریروں میں بالخصوص ان کے افسافوں میں ان کی شخصیت کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک شاعرہ، کالم نگار کی حیثیث سے وہ ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں۔ تاہم ان کے ادبی فن کا اظہار کھل کران کی کہانیوں میں ظاہرہوتا ہے جس کا تازہ ثبوت گمشدہ سائے ہے۔ روبینہ فیصل کی افسانہ نگاری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے امیگریشن کے مسائل سے دوچار شہریوں کی زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے محترمہ روبینہ فیصل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہاکہ ادب کی تخلیق کاروں میں بیرون ملک رہنے والے احسن انداز میں کام کر رہے ہیں ناصرف کینیڈا بلکہ تمام خیلیجی ممالک ، امریکہ ، یورپ میں رہنے والے اردو دان خراج تحسین کے مستحق ہیں اور اس وقت جو کام یہاں ہو رہا ہے اس طرح کا کام پاکستان میں کم ہی نظر آتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرون ملک مقیم شاعروں اور ادیبوں تخلیقات کو عام قاری تک پہنچایا جائے تاکہ انہیں بھی اس ادبیوں کے بارے میں علم ہو روبینہ فیصل نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کتاب ” گم شدہ سائے “ میں انہوں نے ان موضوعات اور کہانیوں کو شامل کیا ہے جو دیکھنے میں عام سی لگتی ہیں لیکن ان میں بہت کرب موجود ہے انہوں نے پاکستان سوشل سنٹر کی انتظامیہ کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا جنہوں کی ادبی فضا کو قائم رکھا ہوا ہے اور اردو ادب کی آبیاری کے لئے کام کر رہے ہیں
بعد ازاں صدر محفل جناب ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بلاشبہ دیار غیر میں مقیم شاعر و ادیب بہت عمدہ کام کر رہے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مراکز میں موجود ادبا ءان کے فن کے قدر دان نہیں ہیں اور سبھی کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں روبینہ فیصل کی کتاب ”گم شدہ سائے “ بلاشبہ اردو افسانوں میں ایک نیا باب رقم کر ئے گی کیونکہ روبینہ فیصل نے ان موضوعات کو قارئین کے سامنے رکھا ہے جو خال خال ہی نظر آتے ہیں مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی کتاب پر پاکستان کے تمام نامور شخصیات نے رائے دی ہے لیکن رائے زیادہ ہونی چاہئے تھی کیونکہ روبینہ فیصل کے تمام افسانے بہت ہی عمدہ اور ریفرنس کے طور پر پیش کرنے کے قابل ہیں ۔ صباحت عاسم واسطی نے پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کی ادبی کمیٹی کی ادب کے لئے خدمات کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ جس تندہی سے یہ ٹیم کام کر رہی ہے متحدہ عرب امارات میں اس کی مثال کم کم ہی ملتی ہے۔
صدر محفل کے بعد محترمہ روبینہ فیصل کی کتاب ” گم شدہ سائے “ کی رونمائی جناب ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی ، جنرل سیکرٹری پاکستان سوشل سنٹر شارجہ جناب چوہدری افتخار ، ادبی کمیٹی کے سربراہ جناب سلیمان جاذب ، انجینئر محمد احسن رانجھا اور شرافت علی شاہ نے کی”گم شادہ سائے کی مصنفہ روبینہ فیصل بھی اس موقع پر موجود تھیں بعد ازاں پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کی طرف سے چوہدری افتخار اور سلیمان جاذب نے اپنی ٹیم اور ڈاکٹر صباحت عاصم کے ساتھ محترمہ روبینہ فیصل کو اعزازی شیلڈ پیش کی ۔ محترم انعم عادل نے پہلے حصے کے بعد نظامت کے لئے سلیمان جاذب کو اسٹیج پر مدعو کیا اور تقریب کے دوسرے حصے کی نظامت کے فرائض محترم سلیمان جاذب نے بخوبی سرانجام دئیے دوسرے حصے میں بھی مسند صدارت جناب داکٹر صباحت عاصم واسطی کے پاس رہی اور مہمان خصوصی محترمہ روبینہ فیصل اور مہمان اعزاز جناب سید عرفان نقوی صاحب تھے مشاعرے میں جناب صباحت عاصم واسطی ، محترمہ روبینہ فیصل ، جناب سلیمان جاذب ، جناب سید سروش آصف ، جناب احیاءالاسلام بھوجپوری ، جناب مسرت عباس ، جناب معید مرزا ، جناب احمد جہانگیر داجلی ، جناب خاقان قمر ،محترمہ فرح شاہد ، جناب رانا عامر لیاقت ، جناب فیاض اسود ، محترمہ عائشہ شیخ عاشی ،محترمہ حنا عباس ، جناب منور احمد ، محترم ابرار عمر ، محترمہ میگی اسنانی ، جناب نعمان نومی ، محترمہ سمعیہ ناز ، محترمہ نیہا شرما ، محترمہ ماہ رخ فاطمہ ، جناب عبید الرحمن نیازی اورحسین شاہ زاد نے اپنا کلام سنایا
اس تقریب کا اہتمام پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کے علامہ اقبال ھال میں کیا گیا تھا لیکن حاضرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کے سبب روران تقریب ہی اسے سنٹر کے مرکزی حال میں منتقل کیا گیا اور ادبی کمیٹی کے اراکین نے منظم انداز میں اسے بغیر کسی خلل کے احسن طریقے سے تقریب کے انتظامات مکمل کئے
تقریب میں پیش کئے گئے چند اشعار
جناب صباحت عاصم واسطی
بہایا جائے گا تازہ لہو اب
پرانے داغ دھوئے جا رہے ہیں
نظر آتی نہیں یہ فصل کٹتی
مسلسل بیج بوئے جا رہے ہیں
روبینہ فیصل
محبت کا مضمون ممنوع ہونا چاہئے (طویل نظم کا ایک حصہ)
”جنگل نما معاشعرے میں جہاں انسانی ہڈیاں تول کے بکنے لگ جائیں
زندگی میں غم سچے اور جھوٹی رہ جائیں ہجوم میں لوگ اپنا اپنا خدا ڈھونڈیں
دلوں کی سیاہی ہو فوٹو شاپ سے چھپا لیا جائے “
سلیمان جاذب
کیا تھا صاف ہم نے راستہ اشجار کٹوا کر
کہاں سے روکنے کو راستہ پتے نکل آئے
سید سروش آصف
یہ ہجرتوں کا زمانہ بھی کیا زمانہ ہے
انہیں سے دور ہیں جن کے لئے کمانا ہے
احیاءالاسلام بھوجپوری
سب حفاظت کر کے ہیں مستقل دیوار کی
جب کہ حملہ ہو رہا ہے مستقل بنیاد پر
مسرت عباس
میں تو سمجھا تھا کوئی بوڑھا شجر بیچا ہے
کیا خبر تھی کہ پرندوں کا نگر بیچا ہے
معید مرزا
کسی کے ماتھے پہ تھوڑی لکھا ہے کون سچا ہے کون جھوٹا
خدا کے بندے پرکھ تو لیتے کسی کو عرض ہنر سے پہلے
احمد جہانگیر داجلی
اب مجھے اپنے ملک جانا تھا
یہ بھی ارباب نے بتانا تھا
خاقان قمر
خدا کو بیچ میں یوں نا گھسیٹ کر لاو ¿
یہ تیرے اور مرے درمیان کا جھگڑا ہے
فرح شاہد
ہو کر شہید دینِ مبیں کو بچا لیا
زندہ ہے آج بھی تو کہانی حسینؓ کی
رانا عامر لیاقت
آو ¿ آنکھیں ملا کے دیکھتے ہیں
کون کتنا اداس رہتا ہے
فیاض اسود
جنہیں اک دوسرے کی تھی ضرورت
وہ سب اک دوسرے کے ہو گئے ہیں
عائشہ شیخ عاشی
دلوں میں کس طرح آخر بھریں گھاو ¿ محبت کے
یہاں چڑھتے اترتے ہیں سدا بھاو ¿ محبت کے
حنا عباس
گر نیک ہوں تو ہوں میں ذرا عیب دار بھی
ماتھے پہ تیرے یونہی نہیں بل پڑے
منور احمد
تجھ کو بھی رو لیتے غم جاناں مگر کیا کیجئے
غم معاش سے فرصت کہاں وقت ہی کم ہے
ابرار عمر
نہ بولتے ہیں نہ سن رہے ہیں جو کہہ رہا ہوں
میں گونگے بہروں میں ایک مدت سے رہ رہا ہوں
میگی اسنانی
تم نے جو بھی کہا ہوا تو نہیں
میرا سچ بولنا برا تو نہیں
سمعیہ ناز
آئنہ دیکھوں تو عکس تیرا پاو ¿ں
مجھ سے بس اتنا سا تعلق رکھنا
نیہا شرما ،
کارواں بہت دھیرے چلتا ہے
ابھی نہ پوچھو مجھ سے جانا کہاں ہے
عبید الرحمن نیازی
دشت کے بیچ میں تالاب نظر آتے ہیں
ہم غریبوں کو فقط خواب نظر آتے ہیں
حسین شاہ زاد
آج سنا ہے اک منگتی خیرات چراتے پکڑی گئی
اب تو شہر میں امن ہی امن ہے آج ہوا انصاف بہت
نعمان نومی
زاہد مجھے صبر کی تلقین کر رہا تھا
میںاسے بھوک پیاس بتا رہا تھا
ماہ رخ فاطمہ
بعد مدت کے آئینہ دیکھا
اپنے جیسا ہی اک بشر دیکھا