چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
فغاں ہے درد ہے سوز فراق و داغ الم
ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں
اب اور گردش تقدیر کیا ستائے گی
لٹا کے عشق میں نام و نشان بیٹھے ہیں
وہ ایک لفظ محبت ہی دل کا دشمن ہے
جسے شریعت احساس مان بیٹھے ہیں
ہے مہ کدوں کی بہاروں سے دوستی ساغر
ورائے حد یقین و گمان بیٹھے ہیں
ساغر صدیقی