کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے خلاف آج 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پرمنایا جائے گا۔
27اکتوبر تاریخ کا وہ سیاہ دِن ہے جب 1947ء میں بھارت ایک سامراج کے روپ میں ابھرا اور کشمیریوں کی مرضی اور تقسیم بر صغیرکے اصولوں کے خلاف کشمیر پر جارحیت کر کے اس کے ایک حصے پرجبری قبضہ کر لیا۔جو آج تک کشمیریوں نے تسلیم نہیں کیا۔
دراصل مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ تقسیم برصغیر کے رہنما اصولوں کے مطابق کشمیر پاکستان کا فطری حصہ ہے اور کشمیری عوام 87فیصد مسلمانوں کی آبادی کے علاوہ جغرافیائی اور تہذیبی رشتوں کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ رہنے کے خواہشمند تھے اور ہیں۔ 19جولائی 1947ء کو سرینگر کے علاقے آبی گزر میں ایک تاریخی قرارداد پاس کی جس میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیاگیا۔ لیکن بھارتی سامراج نے تمام قوانین اور اخلاقی ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے ریاست پر فوج کشی کی اور اس کے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا۔ کشمیر ی عوام نے بھارت کے اس غاصبانہ قبضے کو مسترد کر تے ہوئے اس جارحیت کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کی جو دِن بدن تیز ہوتی جارہی ہے۔
کشمیریوں کی جدو جہد سے خوف زدہ ہو کر بھارتی سامراج اپنے غاصبانہ تسلط کو جواز بخشنے کے لیے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے مختلف مواقع پر 18قراردادیں پاس کیں جن میں کشمیری عوام کو یقین دلایا گیا کہ ان کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیا جائے گا۔
بعد ازاں بھارت اپنے وعدوں سے مکر گیا اور اب سات دہائیوں سے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے کشمیریوں پر اپنی دس لاکھ فورسز مسلط کر کے اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جمو ں وکشمیر کو ایک وسیع و عریض جیل اور دُنیا کے سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والے خطے میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ بے لگام اور بد حواس فوجی انسانیت کے خلاف سنگین اور ہولناک جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں جن میں منظم نسل کشی‘ بدترین تشدد‘ جائیداد کی تباہی اور خواتین کی آبروریزی بھی شامل ہے۔
1989 ء سے اب تک ایک لاکھ کشمیریوں کا سفاکانہ قتل بدترین تشدد کے ذریعے ہزاروں کو ذہنی و جسمانی طور پر ناکارہ بنانے کا مکروہ عمل‘5لاکھ سے زائد مکانوں‘ دکانوں اور دیگر تعمیرات کی تباہی‘ 11ہزار سے زائد عفت مآب خواتین کی آبروریزی‘10ہزار سے زائد کشمیریوں کی حراستی گمشدگی اور دیگر بھیانک جرائم اس بات کا ناقابل تردیدثبوت ہیں کہ بھارت کشمیر کو قبرستان اور کھنڈرات میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے؛ اگرچہ کشمیری عوام 1947ء سے ہی بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی کے شکار ہیں؛تاہم نریندر مودی کی زیر قیادت RSSکی فسطائی حکومت نے انسانیت دشمنی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔ اگرچہ ہندوؤں کی بالا دستی پر یقین رکھنے والے ہندو انتہا پسندعناصر کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرکو بھارت میں ضم کر کے کشمیریوں پر ہندوتوا تہذیب مسلط کریں‘ تاہم ہندوتوا کے اس شیطانی ایجنڈے کا باقاعدہ آغاز5اگست 2019ء کو اس وقت ہوا جب دفعہ370اور35اے جس کے کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو مستقل رہائش اختیار کرنے اور زمینیں خریدنے اور سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کی ممانعت تھی کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس مذموم اور مسلم دشمن اور صیہونی طرز کی سازش کا مقصد غیر ریاستی ہندوؤں کی آباد کاری کے ذریعے کشمیر کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنا اور کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے
ساتھ ہی ہندوتوا کے پجاریوں نے نہ صرف کشمیریوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ تیز کر دیا بلکہ 90لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کو گھروں میں محصور کر دیا۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے ظالمانہ فوجی محاصرے کوتین سال سے زاہد عرصہ ہو چکا ہے۔ برہمن سامراج نے نہ صرف اپنی دس لاکھ فورسز مسلط کر رکھی ہے بلکہ محصور کشمیریوں کے تمام سیاسی سماجی‘معاشی اور مذہبی حقوق بھی چھین لیے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت اور تعلیم کی سہولیات سے بھی کشمیری محروم ہیں۔ ظالمانہ اور تاریخ کے اس طویل ترین فوجی محاصرے نے کشمیریوں کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کی خواتین کو محاصرے اورتلاشی کی کارروائییوں کے بہانے بھارتی فورسز کے ہاتھوں مسلسل اغوا‘ جنسی تشدد ٗ غیر قانونی حراستوں اور چھیڑ چھاڑ کا سامنا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے ”آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ“نام سے ایک کالا قانون بنارکھا ہے جس کے ذریعے جنسی تشدد میں ملوث بھارتی فوجیوں کو سزا سے بچایا جاتاہے۔بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو غیر قانونی حراست میں لینے کے لئے دو کالے قوانین”پبلک سیفٹی ایکٹ“(PSA)اور”غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کاقانون“(UAPA) بنا رکہے ہیں۔
اگست2019میں مودی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔کشمیرکی جیلوں میں قید تحریک آزادی کے کارکنوں کو خودکشی یا حادثات ظاہر کرکے قتل کیا جارہا ہے اب تک متعد قیدیوں کوکشمیر کی جیلوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کیا جاچکا ہے تاکہ وہاں ان کو دی جانے والی اذیت ناک موت کا کسی کو پتہ نہ چل سکے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کی طرز پر آباد کاری کرتے ہوئیے ایک طرف مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے تو دوسری جانب اب تک پینتالیس لاکھ سے زائیدہندووں کوڈومیسائیل جاری کرکے وہاں آباد کیا جارہا ہے جبکہ25 لاکھ بھارتی شہریوں کومتنازعہ علاقہ میں ووٹ ڈالنے کاغیر قانونی حق دے دیاگیا ہے اس کے علاوہ دریائے چناب پرریلوے ٹریک بناکر مقبوضہ وادی کو بھارت کے بڑے ریلوے نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جارہا ہے۔بھارتی حکومت نے اپنی دس لاکھ سے زائد فوج تعینات کرکے مقبوضہ کشمیر کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے‘ اس کے باوجود عالمی ضمیر سو رہا ہے۔ غزہ ہو یا کشمیر‘ آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔ کفر سارا ایک ملت ہے۔ غزہ ہو یا کشمیر‘ ہمیں جھنجوڑا رہے کہ اگر کفر سارا ایک ملت ہے‘ تو ہم اسلام‘ قرآن‘ بہترین رہبر رحمت العالمین کے ہوتے‘ علاقائی‘ مسلکی‘ قبیلائی‘ فرقہ واریت میں کیوں رسوا ہو رہے‘ ہمیں ایک امت بننا ہو گا۔ غزہ اور کشمیر کی آزادی یقینی ہے۔ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
عابد ضمیر ہاشمی