تجدید قیصر کے نام
یہ نئی غزل میں نے تجدید قیصر کی ایک غزل سن کر کہی.
وہ رات آئی کہ چہرا ترا تمام ہوا
میں خواب میں تھا مرا جاگنا تمام ہوا
ستارہ ایک سرائے پہ آ کے ٹہر گیا
دعا تمام ہوئی راستہ تمام ہوا
قسم ہے صبح کی جب صبح سانس لینے لگی
پھر اس کے بعد خدا نے کہا تمام ہوا
کسی کا چہرا تراشا گیا ہواؤں میں
کسی کا نام پکارا گیا تمام ہوا
میں گر پڑا تھا کسی کوزہ گر کے ہاتھوں سے
مری جگہ پہ کوئی دوسرا تمام ہوا
سنا جو تجھ کو سماعت مری تمام ہوئی
جو تجھ کو دیکھا مرا دیکھنا تمام ہوا
خدا کی شکل مرے ساتھ ساتھ بنتی گئی
جو میں تمام ہوا تو خدا تمام ہوا
بس ایک حرف مری لوحِ خاک پر اترا
تمام عمر کا لکھا پڑھا تمام ہوا
پڑی ہوئی تھی مری قوس تیرے پیروں میں
جو تو چلا تو مرا دائرہ تمام ہوا
میں ایک قطرہِ شبنم تھا شاخِ صحرا پہ
مرے وجود سے دریا ترا تمام ہوا
کہیں کہیں پہ تری شکل جھلملانے لگی
کہیں چراغ کہیں آئینہ تمام ہوا
پھر ایک روز مرے روز و شب ملائے گئے
پھر ایک روز مرا سلسلہ تمام ہوا
پھر ایک روز کسی در سے بھیک میں قیصر
ملی جو پیاس تو پیالا مرا تمام ہوا
نذیر قیصر