اردو غزلیاتزاہد فخریشعر و شاعری

اسے اپنے فردا کی

زاہد فخری کی ایک اردو غزل

اسے اپنے فردا کی فکر تھی، جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا

میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا

کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ خود سراپا سوال تھا

وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا

دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اُسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا

میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، اور مجھے فقط اتنا وہ کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا

 

زاہد فخری

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button