ان بادلوں میں روشن چہرہ ٹھہر گیا ہے
میری نظر میں کوئی جلوہ ٹھہر گیا ہے
اشکوں کے پانیوں میں اترا کسی کا چہرہ
بہتا ہوا اچانک دریا ٹھہر گیا ہے
آنکھوں کی سیپیاں تو خالی پڑی ہوئی ہیں
پلکوں پہ میری کیسے قطرہ ٹھہر گیا ہے
جس نے مجھے چھوا تھا،نشتر تھا وہ ہوا کا
زخم ایک میرے دل میں گہرا ٹھہر گیا ہے
نیلی رتوں میں کوئی آ کر ملا تھا شاید
اک زہر سا رگوں میں جس کا ٹھہر گیا ہے
کیسا عجب سفر ہے د ل کی مسافتوں کا
میں چل رہی ہوں لیکن رستہ ٹھہر گیا ہے
گردش رکی ہوئی ہے میرے لہو کی نیناں
یا وقت کا کہیں پر پہیہ ٹھہر گیا ہے
فرزانہ نیناں