نیپال میں سیاسی بحران
نیپال میں سیاسی بحران اور نئی نسل میں بے چینی
نیپال اس وقت ایک شدید سیاسی اور سماجی بحران سے دوچار ہے۔ یہ بحران محض کسی عام احتجاج کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ایسی عوامی بیداری کا اظہار ہے جو خاص طور پر نوجوان نسل میں شدت کے ساتھ ابھری ہے۔ حکومت نے جب فیس بک، ٹوئٹر (ایکس)، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی تو شاید اسے لگا کہ یوں اپنی گرفت مزید مضبوط کر لے گی، مگر یہ فیصلہ الٹا آگ میں گھی کا کام کر گیا۔
نوجوان نسل نے اس اقدام کو اپنی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ "جنریشن زی” نہ صرف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلی بلکہ یہ تحریک ایک ملک گیر صورت اختیار کر گئی۔ صدر ، وزیراعظم سمیت کابینہ کو مستعفیٰ ہونا پڑا۔پولیس کے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور طاقت کے استعمال کے باوجود مظاہرے دبائے نہ جا سکے۔ ان احتجاجات میں کم از کم 19 نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔
اہم پہلو یہ ہے کہ یہ تحریک کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کے اشارے پر نہیں چلی بلکہ نئی نسل نے اپنے شعور اور حق کی خاطر خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس عوامی دباؤ کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینا پڑا۔ یہ محض ایک شخص کی رخصتی نہیں بلکہ پورے سیاسی ڈھانچے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ عوامی غصے نے پارلیمنٹ، سرکاری دفاتر اور سیاستدانوں کے گھروں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالآخر حکومت کو نہ صرف سوشل میڈیا پر عائد پابندی واپس لینی پڑی بلکہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لیے معاوضے اور ایک تحقیقاتی کمیٹی کا اعلان بھی کرنا پڑا۔
یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ نیپال کی سیاست اب نوجوانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ اگر ان کی توانائی اور شعور کو مثبت سمت نہ دیا گیا تو یہ بغاوت کسی بڑے انقلابی عمل میں ڈھل سکتی ہے۔ ملک میں متبادل قیادت اور نئی سیاسی جماعتوں کے ابھرنے کے امکانات دن بدن بڑھ رہے ہیں، اور اس پورے عمل میں نوجوان مرکزی کردار ادا کریں گے۔
تاہم ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے۔ بھارت کی نیپال میں بڑھتی ہوئی مداخلت نوجوانوں کے غصے کو مزید بھڑکا رہی ہے۔ نیپال کی جغرافیائی اہمیت اور چین کے ساتھ اس کی قربت نے بھارت کو ہمیشہ وہاں اثرورسوخ قائم رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ آج جب نیپال اندرونی بحران سے دوچار ہے تو بھارت اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے حالات کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیپالی نوجوان نہ صرف اپنی حکومت سے نالاں ہیں بلکہ بیرونی اثرات کے خلاف بھی سخت حساسیت دکھا رہے ہیں۔
یہ صورتحال ایک بڑا سوال اٹھاتی ہے: کیا نیپال کے نوجوان اب روایتی سیاستدانوں اور بیرونی طاقتوں کی بجائے خود اپنے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ محض نیپال کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ایک اشارہ ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک میں بھی نوجوانوں کے اندر یہی بے چینی اور تبدیلی کی طلب شدت کے ساتھ موجود ہے۔
نیپال کا موجودہ بحران ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ آج کے دور میں طاقت کے زور پر عوام کی آواز کو دبانا ناممکن ہے۔ آج کا نوجوان صرف ووٹ دینے والا نہیں بلکہ سڑکوں پر نکل کر اپنا حق چھیننے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی قیادت اور علاقائی طاقتیں اس حقیقت کو مان لیں گی یا پھر حالات مزید بگاڑ کی طرف بڑھیں گے؟
یوسف صدیقی