- Advertisement -

شہر کی سیر

بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس

روشانے سونے کے لیے لیٹی تو وجدان کا میسج آیا
” آئی لو یو روشانے ” وہ مسکرا دی یہ وہ میسج تھا جو اسے دن میں پتا نہیں کتنی بار آتا تھا بھلے روشانے آفس میں ہو یا نہ ہو روشانے اس تین لفظی میسج کو دن میں کئی کئی بار پڑھتی ان تین لفظوں میں بہت سے مفہوم پنہاں تھے جنہیں وہ روز محسوس کرتی روز جیتی اب تو اسے عادت ہو گئی تھی اس کے میسجز کی۔
***********
اس نے آج روشانے کو ایک ہوٹل میں دیکھا تھا کسی کے ساتھ یقیناً وہ اس کا شوہر تھا اسے دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا لیکن اس نے اپنے غصے کو کنٹرول کیا اور سہی وقت کا ویٹ کرنے لگا۔
*********
اگلے دن جینی نے روشنی کو رالف کی کال کا بتایا
” جینی وہ رالف تم سے بات کرنا چاہتا ہے”
” وااااٹ اتنا سب ہونے کے باوجود اب وہ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتا ہے ”
” وہ تم سے معافی مانگنا چاہتا ہے اپنے کیے کی”
نو نیور میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی” اس نے غصے سے کہا اور چلی گئی۔
وہ اب روشانے سے دوستی کرنا چاہتا تھا اس لیے ہر اس جگہ پہ جاتا جہاں وہ وہ موجود ہوتی ایک طرح سے وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا اور روشانے کے قریب آنے کے لیے اس نے ثنا سے میل جول بڑھانا شروع کردیا
اب اکثر پارک جاتا کیونکہ ثنا اور روشانے وہاں ہوتی تھیں اس شام بھی وہ دونوں پارک میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ وہ چلا آیا
” اوہ ہائے ہاؤ آر یو؟؟؟” ثنا نے اس سے پوچھا
” فائن یو سے”
” آئم آلسو فائن” ثنا نے خوشدلی سے جواب دیا
روشانے چپ بیٹھی تھی کہ ثنا بولی "روشانے یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں اس شہر کی سیر کروائیں ” روشانے نے ایک دم گھور کے دیکھا
” اور وہ کیوں ”
” کیونکہ یہ یہاں فرسٹ ٹائم آئے ہیں تو انہیں پتا نہیں ہے اس جگہ کا”
” تو اتنے دن یہ کیا کر رہے تھے اور سیر کے لیے انہیں ہم ہی ملے ہیں ”
” اوففف روشانے یہ دوست ہیں اب ہمارے سو پلیز نا اور سوال نہ کرو اور بتاؤ”
روشانےنے کچھ سوچا اور پھر بولی” ٹھیک ہے”
” اوہ تھینک یو روشانے” وہ خوش ہو کر بولا
” پر۔۔۔۔”
” پر کیا روشی” ثنا بولی
” یار ماما بابا سے تو میں پوچھ لوں گی بٹ کہیں وجدان کو برا نہ لگے”
” تمہارا ہسبینڈ کیا اتنا نیرو مائنڈ ہے ” وہ بولا تو روشانے ایک دم غصہ ہوئی
” یو جسٹ شٹ اپ اوکے وہ نیرو مائنڈ نہیں ہیں میرے لیے کانشنس ہیں ”
” اور یہ تمہارا ملک نہیں ہے جہاں ہر کوئی آزاد گھومتا پھرتا ہے یہ پاکستان ہے یہاں کے آدمی جتنے اوپن مائنڈ ہوں لیکن اپنی وائف کو غیر آدمیوں کے ساتھ گھومنے کی اجازت نہیں دیں گے ”
” تو اسے یہ بول دو کہ تم نے اپنی دوست کو لے کر جانا ہے گھومانے وہ کونسا تمہاری جاسوسی کرے گا” اس نے سکون سے کہا
"تم مجھے یہ کہہ رہے ہو کہ میں اپنے شوہر سے جھوٹ بولوں ”
"اس میں جھوٹ کیا ہے روشانے میں تم دونوں کا دوست ہی ہوں اور باہر سے آیا ہوں ”
” ہاں روشی پلیز” پھر ثنا اور اس نے بہت سمجھایا تو وہ مان گئی ” اوکے” پر اندر سے اس کا دل بہت گھبرایا ہوا تھا اسے خود بھی نہ پتا تھا کی وہ اپنی بربادی پہ قدم رکھنے جا رہی ہے
اور دوسری طرف اسے اپنی فتح بہت قریب سی نظر آرہی تھی۔
**********
وجدان آفس میں بیٹھا روشانے نے اسے فون کر کے بتادیا تھا کہ وہ 2 دن کی چھٹی کرے گی
” خیریت روشانے سب ٹھیک تو ہے نا” اس نے پوچھا
” جی سب ٹھیک ہے ”
پھر دو دن کی چھٹی کس بات کی تمہیں پتا ہے نا میرا دن نہیں گزرتا تمہارے بغیر” روشانے ہنسی
” دو دن کی ہی تو بات ہے ”
” تم مجھ سے پوچھو دو دن کتنے زیادہ ہوتے ہیں خیر چھوڑو یہ بتاؤ کیوں نہیں آؤ گی” روشانے کا دل چاہا سچ بتا دے لیکن پھر اس نے سوچا وہ کتنی محبت کرتا ہے اس سے کہیں برا نہ لگے اسے تب ہی بولی
” وہ۔۔۔ میری دوست آئی ہوئی ہے باہر سے تو اس نے ضد کی ہے کہ۔۔۔ کہ میں اسے اپنا سٹی دکھاؤں” روشانے نے پہلی بار اس سے جھوٹ بولا تھااس لیے گھبرا رہی تھی
” یہ تو بہت اچھی بات ہے اوکے انجوائے کرو ”
” تھینک یو” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا روشانے جھوٹ بول کر بہت گلٹی فیل کر رہی تھی۔
***********
وہ آفس سے نکل رہا تھا کہ وجدان کے پاس ان نون نمبر سے کال آئی
” ہیلو وجدان اسپیکنگ”
” کیسے ہو وجدان ”
” کون بات کر رہے ہیں؟؟؟”
” آپ ہمیں جان کر کیا کریں گے روشانے کا سنائیں کیسی ہیں”
” آپ کیسے جانتے ہیں میری بیوی کو”
” انہیں کیسے نہیں جانیں گے ہم وجدان صاحب۔۔۔کچھ سال پہلے وہ اسی طرح ہمارے ساتھ بھی تھیں”
” وااااٹ کیا بکواس کر رہے ہو تم منہ سنبھال کے بات کرو ورنہ۔۔۔۔”
” ورنہ کیا ہاں سچائی ہمیشہ کڑوی ہی ہوا کرتی ہےاگر یقین نہیں آتا تو خود جا کے دیکھ لیں کہ وہ اس وقت کہاں اوع کس کے ساتھ ہیں ”
” مجھے کچھ نہیں جاننا بھروسہ ہے مجھے اس پر ” وہ غصے سے بولا
” امآپ کی مرضی میں آپ کو میسج بھیجتا ہوں کہ وہ کہاں ہیں ” اور کال کٹ گئی وہ غصے میں کتنی ہی دیر وہیں بیٹھا رہا۔
***********
وہ لوگ آج سی ویو آئے تھے ثنا کو تو پانی سے ڈر لگتا تھا اس لیے وہ اور روشانے پانی کی طرف آگئے تھے سی ویو اس کی فیورٹ جگہ تھی وہ دونوں پانی انجوائے کر رہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے یہ جانے بغیر کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے اور پتھر کا ہو گیا ہے
****************
وجدان صرف اپنے دل کی تسلی کے لیے وہاں گیا تھا پر جو اس نے دیکھا اسے بالکل یقین نہ آیا کہ وہ اس کی روشانے تھی گھر آکے وہ کمرے میں بند ہو گیا ماما وانیہ سب نے بلایا بٹ اس نے دروازہ نہ کھولا وہ بہت ڈسٹرب تھا رات کو اس نے روشانے کو فون کیا
” ہیلو ”
” روشانے کس کے ساتھ گئی تھیں تم ”
” آپ کو بتایا تو تھا ”
” ہممم۔۔۔۔۔ اچھا دوست کا نام کیا ہے؟؟؟” وہ یک دم بوکھلائی
” ماریہ” اس نے کہا اور وجدان کو اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا اس نے فون رکھ دیا۔
آج ایک ہفتہ ہو گیا تھا وجدان نے کال تو اور میسج تک نہ کیا تھا وہ پریشان تھی آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ وجدان نے اس ایک ہفتے میں بھی پلٹ کے نہیں دیکھا تھا وہ آفس جاتی تو وہ اس سے ملے بغیر چلا جاتا یا آتا ہی نہیں تھا اس نے سوچا آج وہ اسے خود کال کرے گی
دو تین بیل کے بعد فون اٹھا لیا گیا تھا لیکن فون اٹھانے والا خاموش تھا
” ہیلو۔۔۔۔۔۔ ہیلو وجدان ” روشانے بولی اور پہلی بار وجدان کو اس کے منہ سے اپنا نام زہر لگا
” وجدان ہیلو” وہ پھر بولی
” ہممم۔۔۔۔” وہ بس اتنا بولا آنکھوں میں پھر جلن ہونے لگی تھی
” آپ بات کیوں نہیں کر رہے” روشانے بولی
” آپ کو پتا ہے میں آپ سے اس بات پہ ناراض بھی ہو سکتی ہوں”
وجدان تلخی سے مسکرایا ” اب فرق نہیں پڑتا”
روشانے چونکی ” جی۔۔۔”
” روشانے میں بزی ہوں ” اور کہہ کے فون رکھ دیا روشانے کتنی ہی دیر فون جو دیکھتی رہی۔
*********

بینا خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بینا خان کے ناول محبت سے محبت ہے سے اقتباس