- Advertisement -

اقبال احمد ساجد

اقبال احمد ساجد کے نعتیہ مجموعہ کلام پر لکھا گیا مقالہ

اقبال احمد ساجد کے نعتیہ مجموعہ کلام پر لکھا گیا مقالہ

نعت وسیلہ ہے،سعادت ہے،توفیق ہے،عطا ہے۔گناہوں کی معافی ہے،خطاؤں کی تلافی ہے۔ایک نعت قبول ہو تو دوسری بار کہنے کی توفیق ملتی ہے۔نجانے پروردگار عالم کو اس شخص پر کتنا پیار آتا ہو گا جسے وہ اپنے حبیبؐ کی نعت کہنے کے لیے منتخب کرتا ہے۔میرا ایمان ہے کہ نعت کا اک اک حرف عرش پر ستارابن کر چمکتا ہے اور نعت کہنے والے کانصیب تو ماہتاب و آفتاب سے بھی کہیں بڑھ کر روشن اور چمکدار ہوتا ہے۔نعت کا ایک ایک حرف سچے اور پاکیزہ جذبات کا والہانہ اظہار ہوتا ہے بلکہ ایمان کا ثبوت اور نبی پاک ؐ سے عشق کا گواہ بن کر بخشش کا جواز بنتا ہے۔تو ایسے میں اسے دنیاوی اوزان و بحور کی کسوٹی پہ پرکھنا یاکسی شاعری پیمانوں کے حوالے سے اس کے ادبی قد کاٹھ کا تعین کرنابڑا نا مناسب بل کہ معیوب سا لگتا ہے۔اردو ادب کی دیگر بڑی اصناف ہیں جن کو ان کے قواعد و ضوابط کے مطابق جانچا جانا چاہیے اور ان کے حسن و قبح پر کھل کر رد و قدح ہونی چاہیے لیکن نعت کے حوالے سے میرا دل کرتا ہے کہ اسے صرف اپنے قلب پر اترتا ہوا محسوس کرنا چاہیے۔اسے روح کی غذا اور نفس مطمئنہ کی تسکین بنانا چاہیے۔کیا پتہ کون سا لفظ،کون سا شعر آپ کے بھی دل کی آواز بن کر درود پاک میں ڈھل کر مقبول بارگاہ ایزدی ہو جائے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ رسالت مآبؐ کی سطوت و عظمت کا حق ان لفظوں میں کسی صورت ادا نہیں کیا جا سکتالیکن چوں کہ آپؐ کی شان اقدس کوبیان کرنے والا ذہن اپنے تئیں اپنی عقیدتوں کی معراج پر ہوتا ہے اور شان مصطفی ؐ رقم کرنے والا معتبر و متبرک قلم بھی اپنے نصیب کے اوج ثریا پر جلوہ افروز ہوتا ہے تاہم یہی معاملہ پاک پروردگار کے ہاں کتناباعث شرف و تکریم ہو گا کہ اس کا اندازہ قرار دینا زمیں پہ بسنے والوں کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔لہذا میں نعت کے ایک ایک حرف کو قطعی قبول مانتا ہوں۔سچ کہوں تومیرا تو کسی نئے لکھنے والے کے نعتیہ اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے یا رائے دیتے ہوئے دل ڈرتا ہے اور یہاں تو بات ہی باکمال استاد، بزرگ شاعر اقبال احمد ساجد کے نعتیہ مجموعہ ”اثاثہ جاں ” کی ہو رہی ہے۔یقینا یہ اثاثہ جاں بھی ہے اور اثاثہ ایماں بھی ہے۔بخشش کا سامان بھی ہے اور خاص عطائے رحمن بھی ہے۔ اقبال احمد ساجد بلاشبہ ایک ایک مصرعہ پر محنت کرنے والے شاعر ہیں۔نعت کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں لیکن نعت شریف میں آ کر ان کے فن سخن وری کو ایک الگ ہی اقبال ملتا دکھائی دیتا ہے۔ان کے نعتیہ اشعار میں جہاں آقا کریمؐ کی ذات اقدس کے شایان شان الفاظ کے چناؤ کا خیال رکھنے کی بھرپور بشری کوشش کی گئی ہے وہاں اپنے عقیدے اور ایمانی جذبوں کی بھی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ان کو فن شاعری پر اتنی دسترس حاصل ہے کہ جو بھی وہ دلی طور پر کہنا چاہتے ہیں،خوش اسلوبی کے ساتھ بآسانی کہہ لیتے ہیں۔ان کے اشعار میں آمد کا تاثر بڑا لطیف ہے۔کہیں کوئی تردد یا دقت دکھائی نہیں پڑتی۔
بڑا کرم ہے جو یہ التفات ہو جائے
زباں سے حرف نکلے اور نعت ہو جائے
فضائے شہر مدینہ جو ہو نصیب مجھے
مجھے زمانے کے غم سے نجات ہو جائے
”اثاثہ جاں ” پڑھ کر مجھے یوں لگا کہ جیسے مدینے کا کوئی مسافر پُر اشک آنکھوں میں گنبد خضریٰ کی دید کی حسرت لیے ہوئے قدم قدم پر رحمتیں اور برکتیں سمیٹتے ہوئے جھومتا ہوا مدینے پاک کی جانب محو سفر ہے اور منزل کو پانے کی امید سے خوشی میں ایک طمانیت کا قیمتی احساس ان کو گھیرے ہوئے ہے۔دوران سفر تصور ہی تصور میں کبھی وہ خود کو گنبد خضریٰ کی ٹھنڈی تسکین بخش چھاؤں تلے پاتے ہیں تو کبھی لَا تَرفَعُوا اَصوَاتَکُم فَوقَ صَوتِ النَّبِیِّ۔۔کے مصداق حزم و حجاب سے لجاتے ہوئے دور بیٹھے روضہ اطہرؐ کی سنہری جالیوں کو بصد عقیدت و احترام سے تکتے ہوئے ملتے ہیں۔کبھی یوں لگتا ہے کہ وہ آقاکریمؐ کے قدم انورکی جانب با ادب کھڑے اپنے اشعار میں ڈھلی ہوئی دکھی دل کی فریاد سنا رہے ہیں۔توکبھی لگتا ہے کہ وہ رحمت اللعالمینؐ کے حضور میں پیش ہو کر وَاِذ ظَلَمُوااَنفُسَھُم جَآءُ کَ۔۔کی تفسیر بنے ہوئے اپنی تقصیروں کی معافی کے طلبگار بنے بیٹھے ہیں۔کبھی لگتا ہے کہ موصوف ایک بچے کی طرح بلکتے ہوئے روضہ رسولؐ کی جالیوں سے لپٹ لپٹ کر والہانہ رو رہے ہیں تو کبھی لگتا ہے کہ وہ دیوانوں کی مثل مدینے کی گلیوں میں کھو گئے ہیں۔اورکبھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی قسمت پر نازاں دکھائی دیتے ہیں اور حیرت زدہ ہیں کہ قسمت انھیں کتنے پاک در کی حاضری کا شرف بخش رہی ہے۔بلاشبہ” اثاثہ جاں ” ایک ابدی دولت ہے جو محترم اقبال احمد ساجد کے ہاتھ آ گئی ہے۔” اثاثہ جاں ” مرتب کر کے انھوں نے اپنی زندگی کوقابل رشک بنا لیا ہے۔نعت اپنے کہنے والے کو مستجاب الدعا بنا دیتی ہے اور محترم اقبال احمد ساجد بھی اب یقینا انھی خوش نصیب ہستیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔میری دعا ہے کہ آپ کی عمر دراز ہو اور توفیق کا یہ سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے،آمین

اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
تہمینہ مرزا کی ایک اردو غزل