اردو تحاریرمقالات و مضامین

میر، غالب، اور ایک منٹ کے چاول

اردو مضمون از زیف سید

شاعری کا تعلق دل کی دنیا سے ہے اورکہا جاتا ہے کہ دل کا راستا پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اسی منطق کو آگے بڑھایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ شاعری کا پیٹ سے گہرا تعلق ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اردو کے کئی عظیم شعرا اکثر خالی پیٹ ہی رہا کرتے تھے۔

اردو کے عظیم شعرا کا ذکر آیا ہے تو میر اور غالب سے زیادہ عظیم کون ہو گا۔ لیکن کیا کبھی میر اورغالب نے سوچا ہو گا کہ ایک دن انھیں چاول بنانے کے ایک نسخے سے اتنا فائدہ پہنچے گا جو ان کے کسی مربی نواب سے زندگی بھر نہیں ملا اور اسی نسخے کی بدولت ان کے فن پر قابلِ قدر تحقیقی اور تنقیدی کارنامے سرانجام دیے جائیں گے؟

کیلنڈر کے صفحات تیزی سے پلٹ کر ہم پہنچتے ہیں 1971ء میں۔ نیویارک سے شائع ہونے والے مشہور رسالے ’نیویارکر‘ میں وید مہتا نامی ایک شخص خط لکھا، جس میں انھوں نے نیویارکر ہی میں شائع ہونے والے ایک اداریے کا جواب دیا تھا۔

اوراس اداریے کا موضوع کیا تھا؟ اس کے لیے ہمیں مزید سات سال پیچھے جانا پڑے گا کیوں حیرت انگیز طور پر مہتا صاحب کو اس کا جواب دیتے دیتے سات برس لگ گئے تھے۔

سات برس قبل 1964ء میں نیویارکر نے ایک دل چسپ و عجیب وصیت کا ذکر کیا تھا۔ ایک افغان نژاد شخص عطااللہ اوزئی درانی نے پانچ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اس مقصد کے لیے مختص کی تھی کہ میر اورغالب کی شاعری کے انگریزی میں تراجم کیے جائیں۔ مدیر نے اس وصیت پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھا تھا:

’جناب درانی نے انیسویں صدی کے فارسی شعرا (کذا) میرتقی میر اورغالب کے انگریزی ترجموں اور ان کی سوانح لکھنے کے لیے یہ رقم چھوڑی ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ خراب شعرا ہوں، لیکن ’منٹ رائس‘ کے موجد جناب درانی اگر ان کے اتنے مداح ہیں تو ہمیں اس بات پر اطمینان ہے۔‘

اس اداریے میں ’خراب شعرا‘ کا جو فقرہ استعمال ہوا،اسی نے وید مہتا صاحب کو سات برسوں بعد ہی سہی، اس کا جواب دینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن اس سےپہلے کہ ہم وید مہتا کے جوابی خط کا جائزہ لیں، پہلے اس بات کا تعین ہو جائے کہ منٹ رائس کیا چیز ہے؟ اس کے لیے ہمیں 23 سال مزید پیچھے جانا پڑے گا۔

عطااللہ درانی صاحب ویسے تو جامعہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے، لیکن 1930 کی دہائی میں امریکہ جا بسے تھے۔ درانی صاحب کا میلان کھانا پکانے کے نت نئے نسخے ایجاد کرنے کی طرف تھا۔ چناں چہ 1941ء میں ایک دن وہ جنرل فوڈ کمپنی کے دفتر میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے اور اپنی سالہاسال کی تحقیق کا نچوڑ کمپنی کے مینیجر کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ انھوں نے چاول بنانے کا ایک ایسا نسخہ دریافت کیا تھا جس کے تحت صرف ایک منٹ میں مزے دار چاول بنائے جا سکتے تھے۔

امریکہ خاصے عرصے سے صنعتی دور میں داخل ہو چکا تھا۔ زندگی بے حد مصروف تھی، مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین بھی زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو رہی تھیں اور ان کے پاس گھنٹوں باورچی خانے میں گزارنے کا وقت نہیں تھا۔ اس لیے کم وقت اور بالانشین قسم کا یہ نسخہ جنرل فوڈ کو اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے فوراً اسے منھ مانگی قیمت پرخرید لیا اور درانی صاحب راتوں رات کروڑ پتی ہو گئے۔

اسی رقم میں سے کچھ انھوں نے میر و غالب پر تحقیق کے لیے چھوڑی تھی۔

وید مہتا صاحب نے نیویارکر کے اداریے کے جواب میں لکھا کہ میر اور غالب ہرگز خراب شعرا نہیں تھے، بلکہ اردو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ دونوں انگریزی کے عظیم شعرا چاسر اور بائرن سے بھی دو ہاتھ آگے تھے، ان کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ ان کا ترجمہ کسی اور زبان میں ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ ایسی کوئی بھی کوشش ان شعرا کی توہین کے مترادف ہو گی۔

عطااللہ درانی کا انتقال 1964ء میں امریکی ریاست کولوراڈو میں ہوا تھا۔ انھوں نے ایک امریکی خاتون سے شادی کی تھی اوران کی ایک بیٹی بھی تھی، لیکن بعد میں ان کی بیوی سے علاحدگی ہو گئی تھی۔

درانی صاحب کی اس عجیب و غریب وصیت نے ان کے وکلا کو بھی اچھے خاصے مخمصے میں ڈال دیا تھا کیوں کہ ان بے چاروں نے کبھی میر یا غالب کا نام تک نہیں سنا تھا، اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ دونوں فارسی کے شعرا ہیں۔ جب امریکہ میں قائم بھارتی قونصل خانے کے لائبریرین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے خاصی سوچ بچار کے بعد نتیجہ نکالا یہ معاملہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی تحقیق کا نچوڑ یہ تھا کہ غالب کی شاعری عاشقانہ اور فلسفیانہ ہے جب کہ میر کی شاعری شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔

جب نیویارک کی کولمبیا یونی ورسٹی کے مطالعہٴ ایران کے پروفیسر احسان یارشاطر سے اس معاملے پر روشنی ڈالنے کے لیے درخواست کی گئی تو انھوں نے بھی بھارتی لائبریرین کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ واقعی یہ دونوں شاعر پاکستانی علاقے کے باشندے تھے۔ انھوں نے یہ اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ ان کی شاعری کوئی خاص نہیں ہے۔

اس کہانی کا آخری سوال یہ ہے کہ آخر 1964ء کے زمانے کے اس نصف ملین ڈالر کی بھاری رقم کا کیا مصرف ہوا؟

درانی صاحب نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ یہ رقم ہارورڈ یونی ورسٹی یا اس جیسے کسی دوسرے تحقیقی ادارے کو دی جائے۔ چناں ہارورڈ یونی ورسٹی نے اس ترکے سے استفادہ کرتے ہوئے پہلے تو مشہور جرمن مستشرق این میری شمل کو انڈومسلم سٹڈیز کا پروفیسر مقرر کر دیا، تو دوسری طرف رالف رسل اور خورشید السلام کے ذمے میر اور غالب پر تحقیق کا کام لگا دیا۔

اسی تحقیق کے ثمر میں ان دونوں حضرات کی کتاب ’تین مغل شاعر‘ اور’غالب، زندگی اور خطوطِ‘ تخلیق کی گئیں، یہ دونوں کتابیں انگریزی زبان میں اردو ادب کے بارے میں عمدہ ترین کتابیں متصور کی جاتی ہیں۔

این میری شمل نے بھی میر کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی، ممکن ہے کہ یہ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہو۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ درانی صاحب نے اردو کی خدمت کے لیے اپنی تجوری کا منھ کھولا ہو۔ اس سے قبل انھوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی کو ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا تاکہ سید حسین یادگاری پروفیسرشپ قائم کی جا سکے۔ تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور درانی صاحب نے بعد میں اپنی رقم واپس لے لی۔

غالب اکثر روزی کی تنگی کی شکایت کیا کرتے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ انھیں اگر اسی قسم کا ایک چاول ساز نسخہ مل جاتا تو وہ ادھار کھانے کی بجائے اسی کی کمائی اڑایا کرتے اور بہادر شاہ ظفر کی بجائے عطااللہ درانی کی مدح لکھتے۔

زیف سید

(شکریہ: وائس آف امریکہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button