اردو تحاریراردو ناولعمیرہ احمد

بے بسی اور خفت کا عالم

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

مسز سمانتھا رچرڈز نے دوسری رو میں کھڑکی کے ساتھ پہلی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو چوتھی بار گھورا۔ وہ اس وقت بھی بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا ۔ وقتا” فوقتا” وہ باہر سے نظریں ہٹاتا ۔۔۔۔۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو دیکھتا اس کے بعد پھر اسی طرح باہر جھانکنے لگتا۔
اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لیے آئی تھیں ۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں ۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں انکے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاں کے سفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں۔
اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظام دوران خون کی ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے سمجھانا شروع کیا۔
ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا ۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کردیا ۔ کلاس میں یک دم خاموشی چھا گئی ۔ اس لڑکے نے سر گھما کر اندر دیکھا ۔ مسز سمانتھا سے اسکی نظریں ملیں انہوں نے مسکرا کر ایک بار پھر اپنا لیکچر شروع کردیا ۔ کچھ دیرتک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں لڑکے پر رکھیں جو اب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی ،انکا خیال تھا کہ وہ خاصا شرمندہ چکا ہے اس لیے اب دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا ۔ لیکن صرف دو منٹ بعد ہی انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا ۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں۔ بلا توقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر انکی طرف دیکھا ۔ اس بار مسز سمانتھا مسکرائیں نہیں بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کردیا ۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ پر کچھ لکھنے کے بعد اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا ۔ اس بار انکے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجھلاتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ اور انکے خاموش ہوتے ہی لڑکے نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھا اس بار لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں ۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو ناگواری سے دیکھ کر وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔
اسکا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز رچرڈز کا چہر سرخ ہوگیا ۔
سالار تم کیا دیکھ رہے ہو ۔ انہوں نے سختی سے پوچھا
یک لفظی جواب آیا ۔ وہ اب چبھتی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا Nothing
تمہیں پتا ہے میں کیا پڑھا رہی ہوں ؟
اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا نے یک دم ہاتھ میں پکڑا ہوا مارکر کیپHope so
سے بند کرکے ٹیبل پر پھینک دیا
یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایا گرام بنا کر اس کو لیبل کرو ۔ انہوں نے اسفنج کے ساتھ
رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ یک بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے ۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے دیکھا ۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا کو دیکھ رہا تھا ۔ جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا ، تیز تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا۔ پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پراسی انداز سے اچھالا جس انداز سے سمانتھا نے اچھالا تھا اور انکی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔ مسز سمانتھا نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا ۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائی جانے والی اس لیبلڈ ڈایا گرام کو دیکھ رہی تھیں جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لیے تھے اوریہ تین منٹ میں بننے والی ڈایا گرام انکی ڈایا گرام سے زیادہ اچھی تھی ۔ وہ اس میں معمولی سی بھی غلطی نہیں ڈھونڈ سکیں ۔ کچھ خفیف ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی ۔ اس بار اندر سے امامہ کی آواز سنائی دی
کون ہے
امامہ ۔ میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔ وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔ اندر خاموشی چھا گئی
کچھ دیر بعد لاک کھلنے کی آواز آئی ۔ وسیم نے دروازہ کھول دیا ۔ امامہ اسکی جانب پشت کیے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی
تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟
آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا ۔ ابھی تو دس بجے ہیں ۔ وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔
بس نیند آرہی تھی مجھے ۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وسیم اسکا چہرہ دیکھ کر چونک گیا ۔
تم رو رہی تھیں ؟ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کررہی تھی
نہیں رو نہیں رہی تھی بس سر میں کچھ درد ہورہا تھا ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی
وسیم نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر ٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی
کہیں بخار تو نہیں ہے ۔ اس نے تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ بخار تو نہیں ہے ۔ پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں
میں لے چکی ہوں
اچھا تم سو جاؤ ۔ ۔۔۔۔ میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے
وسیم نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اور وسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر سے لاگ کرلیا ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا ۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ سال کا وہ لڑکا اس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ جب طیبہ نے اندر جھانکا ۔ بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں
یہ کیا ہو رہا ہے ۔ انہوں نے اندر آتے ہی کہا
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ۔ لڑکے نے ٹی وی سے نطریں نہیں ہٹائیں
ٹی وی دیکھ رہا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک ۔ تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہو رہے ہیں ؟ طیبہ نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا ۔
سو واٹ ۔ لڑکے نے اس بار کچھ خفگی سے کہا ۔
سو واٹ ؟ تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیاں ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے ۔ طیبہ نے ڈانٹا
مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں آپ سامنے سے ہٹ جائیں ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں ناگواری آگئی
پھر بھی اٹھو اور اندر جاکر پڑھو ۔ طیبہ نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا
نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا ۔ میری اسٹدیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں ۔ آپ کا نہیں ۔
اگر تمہیں اتنی پرواہ ہوتی تو تم اس وقت یہاں بیٹھے ہوتے ؟
اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی سےہاتھ سےStep a side
اشارہ کرتے ہوئے کہا
آج تمہارے پاپا آ جائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں ۔ طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی
ابھی بات کرلیں ۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا ؟ پاپا کیا کرلیں گے ۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی تھی میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے ۔
یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے ۔ طیبہ نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا ۔
میں کوئی دو چار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو ۔ میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں ۔ اس لیے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے نہ بولا کریں ۔ ایگزام ہورہے ہیں ، اسٹدیز پر دھیان دو ۔ اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے ۔ میں تمہارے فادر سے بات کروں گی
What rubbish
وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا
طیبہ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلومینا فرانسس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے ایک نظر ہال میں دوڑائی ، پیپر شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اور ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کتابیں ، نوٹس اور نوٹ بکس پکڑے تیزی سے صفحے آگے پیچھے کرتے ان پر آخری نظریں ڈال رہے تھے ۔ انکی جسمانی حرکات سے انکی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہورہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ ایک بہت مانوس سین تھا پھر ان کی نظریں ہال کے تقریبا” درمیان میں بیٹھے سالار پر جا ٹھہریں ۔ پچس اسٹوڈنٹس میں اس وقت وہ واحد اسٹوڈنٹ تھا جو اطمینان سے اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں اسکیل پکڑے آہستہ آہستہ اسے اپنے جوتے پر مارتے ہوئے وہ اطمینان سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا ۔ اپنے سات سالہ کیریئر میں انہوں نے پیپرز کے دوران سالار کو اسی بے فکری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے پایا تھا ۔ نو بج کر دو منٹ پر انہوں نے سالار کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے تھما دیا ۔ تیس منٹ بعد اسے وہ پیپر ان سے لے لینا تھا ۔ نو بج کر objective paper
دس منٹ پر انہوں نے سالار کو اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی ہال میں اس سے پیچھے موجود تمام اسٹوڈنٹس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ وہ پیپر ہاتھ میں لیے فلومینا فرانسس کی طرف جا رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی یہی دیکھتی آئی تھی ۔ تیس منٹ میں حل کیا جانے والا پیپر وہ آٹھ منٹ میں حل کرکے ان کے سر پر کھڑا تھا ۔
پیپر کو دوبارہ دیکھ لو ۔ انہوں نے یہ جملہ اس سے نہیں کہا ۔ وہ جانتی تھیں کہ اسکا جواب کیا ہوگا۔ میں دیکھ چکا ہوں ۔ وہ اگر اسے ایک بار پھر پیپر دیکھنے پر مجبور کرتی تو وہ ہمیشہ کی طرح پیپر لے جا کر کرسی کے ہتھے پر رکھ دیتا اور بازو لپیٹ کر بیٹھ جاتا ۔ انہیں یاد نہیں تھا کہ کبھی اس نے انکے کہنے پر پیپرز کو دوبارہ چیک کیا ہوا ۔ اور وہ یہ بھی تسلیم کرتی تھیں کہ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ اس کے پیپر میں کسی ایک بھی غلطی کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا
انہوں نے ایک ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پیپر پکڑ لیا ۔
تم جانتے ہو سالار ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے ؟ انہوں نے پیپر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تمہیں تیس منٹ کا پیپر ۔۔۔۔۔ تیس منٹ کے بعد سبمٹ کرواتے ہوئے دیکھوں وہ انکی بات پر خفیف سے انداز میں مسکرایا ۔ آپ کی یہ خواہش اس صورت میں پوری ہوسکتی ہے میم اگر میں یہ پیپر 150 سال کی عمر میں حل کرنے بیٹھوں
نہیں میرا خیال ہے 150 سال کی عمر میں بھی تم یہ پیپر دس منٹ میں کردو گے ۔
اس بار وہ ہنسا اور واپس مڑگیا ۔ فلومینا نے ایک نظر اسکے پیپر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ایک سرسری سی نظر بھی انہیں یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ اس پیپر میں کتنے نمبر گنوائے گا ۔۔۔۔۔ زیرو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمیٰ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ کو حیرانی سے دیکھا ۔ یہ کیا ہے امامہ؟ تم تو مارکیٹ گئی تھی ۔ شاید کچھ کتابیں لینی تھیں تمہیں ۔
ہاں امی مجھے کتابیں ہی لینی تھیں ۔ مگر کسی کو تحفے میں دینے کے لیے ۔
کس کو تحفہ دینا ہے
وہ لاہور میں ایک دوست ہے میری ۔ اسکی سالگرہ ہے اسکی کے لیے خریدا ہے ۔ کوریئر سروس کے ذریعے بھجوادوں گی کیونکہ مجھے تو ابھی یہاں رہنا ہے ۔
لاؤ پھر مجھے دے دو یہ پیکٹ ۔ میں وسیم کو دوں گی وہ بجھوا دے گا
نہیں امی ۔ میں ابھی نہیں بھجواؤں گی ۔ ابھی اسکی سالگرہ کی تاریخ نہیں آئی ۔ سلمیٰ کو لگا جیسے وہ یک دم گھبرا گئی ہو ۔ انہیں حیرانی ہوئی ۔ کیا یہ گھبرانے والی بات تھی ؟
تین سال پہلے امامہ کی وجہ سے انہیں اور انکے شوہر ہاشم کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ وہ تب سے اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اور ہاشم اس سے بھی زیادہ ۔ مگر پچھلے تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا ۔ وہ دونوں اب اسکی طرف سے مکمل طور پر مطمئن تھے ۔ خاص طور پر اسجد سے اسکی نسبت طے کرکے ۔ وہ جانتی تھیں امامہ اسجد کو پسند کرتی ہے اور صرف وہی نہیں اسجد کو کوئی بھی پسند کرسکتا تھا ۔ وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ اسجد سے نسبت طے ہونے پر بہت خوش ہوئی تھی ۔ اسجد اور اسکے درمیان پہلے بھی خاصی دوستی اور بے تکلفی تھی مگر بعض دفعہ انہیں لگتا جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت چپ ہوتی جارہی ہے ۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔
مگر اب وہ اسکول جانے والی بچی بھی تو نہیں رہی ۔ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہے ۔ پھر وقت بھی کہاںہ وتا ہے اس کے پاس ۔ ۔۔۔ سلمیٰ ہمیشہ خود کو تسلی دے لییتیں ۔
وہ انکی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑی دونوں بیٹیوں کی وجہ شادی کرچکی تھیں ۔ جب کہ دو بیٹے اور امامہ غیر شادی شدہ تھے ۔
اچھا ہی ہے کہ یہ سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ لڑکیوں کے لیے سنجیدگی اچھی ہوتی ہے ۔ انہیں جتنی جلدی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے ۔ سلمیٰ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے امامہ سے نظریں ہٹا لیں ۔ وہ چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اور جتنے دن وہ یہاں رہتی انکی نظریں اس پر اسی طرح مرکوز رہتیں
پتا نہیں یہ ساجد کہاں رہ گیا ہے ۔ جو بھی کام اس کے ذمے لگاؤ بس بھول ہی جاؤ ۔ انہیں اچانک انہیں ملازم کا خیال آیا ۔ جس کے پیچھے وہ لاؤنج میں آئی تھیں ۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ لاؤنج سے نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نیو ایئر نائٹ تھی ۔ نیا سال شروع ہونے میں تیس منٹ باقی تھے ۔ دس لڑکوں پر مشتمل چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کا وہ گروپ پچھلے دو گھنٹے سے اپنے اپنے موٹرسائیکلز پر شہر کی مختلف سڑکوں پر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھا ۔ ان میں چند نے اپنے ماتھے پر چمکدار بینڈز باندھے ہوئے تھے جن پر نئے سال کے حوالے سے مختلف پیغامات درج تھے ۔ وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے پوش علاقے کی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں موجود تھے اور وہاں وہ مختلف لڑکیوں پر آوازیں کستے رہتے تھے ۔
اپنی بائیکس پر سوار اب وہ مختلف سڑکوں پر چکر لگا رہے تھے ۔ ان کے پاس فائر کریکرز موجود تھے جنہیں وہ وقتا” فوقتا” چلا رہے تھے ۔ پونے بارہ بجے وہ جم خانہ کے باہر موجود تھے جہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر چکا تھا ۔ یہ گاڑیاں ان لوگوں کی تھیں جو جم خانے میں نئے سال کے سلسلے میں ہونے والی ایک پارٹی میں آئے تھے ۔ ان لڑکوں کے پاس بھی اس پرٹی کے دعوتی کارڈ موجود تھے کیونکہ ان میں سے تقریبا” تمام کے والدین جم خانہ کے ممبر تھے
وہ لڑکے اندر پہنچے تو گیارہ بج کر پچپن منٹ ہورہے تھے ۔ چند منٹوں بعد ڈانس فلور سمیت تمام جگہوں کی لائٹس آف ہوجانی تھیں ۔ اور اس کے بعد باہر لان میں آتش بازی کے ایک مظاہرہ کے ساتھ نیا سال شروع ہونے پر لائٹس آن ہونا تھیں ۔ اور اسکے بعد تقریبا” تمام رات وہاں رقص کے ساتھ ساتھ شراب پی جاتی ۔ جس کا اہتمام نئے سال کی اس تقریب کے لئے جم خانہ کی انتظامیہ خاص طور پر کرتی تھی۔ لائٹس آف ہونے ہی وہاں ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوجاتا تھا ۔ اور وہاں موجود لوگ اسی طوفان بدتمیزی کے لئے وہاں آئے تھے
پندرہ سالہ وہ لڑکا بھی دس لڑکوں کے اس گروپ کے ساتھ آنے کے بعد اس وقت ڈانس فلور پر راک بیٹ پر ڈانس کررہا تھا ۔ ڈانس میں اسکی مہارت قابل دید تھی
بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ جانے پر لائٹس آف ہوگئیں اور ٹھیک بارہ بجے لائٹس دوبارہ آن کردی گئی ۔
اندھیرے کے بعد سیکنڈر گننے والوں کی آوازیں اب شور اور خوشی کے قہقہوں اور چیخوں میں بدل گئی تھیں ۔ چند لمحے پہلے تھم جانے والا میوزک ایک بار پھر بجایا جانے لگا ۔ وہ لڑکا اب اپنے دوستوں کے ساتھ باہر پارکنگ لاٹ میں آگیا جہاں بہت سے لڑکے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے ۔ ان ہی لڑکوں کے ساتھ بیئر کے کین پکڑے وہ وہاں موجود ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا ۔ اس لڑکے نے گاڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اپنی جیکٹ کی جیب سے بیئر کا ایک بھرا ہوا کین نکالا اور پوری طاقت سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک گاڑی کی ونڈ اسکرین پر دے مارا ۔ ایک دھماکے کے ساتھ گاڑی کی ونڈ اسکرین چور چور ہوگئی ۔ وہ لڑکا اطمینان کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا کین پیتا رہا

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button