آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزانور علی

کرونا لاک ڈاؤن کے دوران

انور علی کی ایک اردو تحریر

*کرونا لاک ڈاؤن کے دوران روایتی رسومات کے خلاف میرا مؤقف اور خاندان میں تبدیلی کا آغاز*

یہ واقعہ جون 2020 کا ہے، جو میری زندگی کا ایک اہم تجربہ ہے، جسے میں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت پوری دنیا میں کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا کیونکہ کرونا نے سب کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔
میرا تعلق ایک متوسط طبقے کے خاندان سے ہے، اور ہمارے رشتہ دار زیادہ تر لاڑکانہ ضلع اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے، 90 کی دہائی میں ہمارے علاقے میں شادیاں بڑی سادگی سے ہوتی تھیں۔ دھولک اور شہنائی کی رسومات ہوتی تھیں، دیہاتی عورتیں مل کر دھولک بجاتی تھیں اور روایتی گیت گاتی تھیں، جو دل کو خوش کر دیتے تھے۔
وقت کے ساتھ سب کچھ بدلتا گیا، روایات بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہو گئیں۔ 2020 تک زمانہ بالکل بدل چکا تھا — اب "ایکو ساؤنڈ” اور "مووی” کا دور آ چکا تھا۔ اسی دوران میری سوچ میں بھی تبدیلی آئی۔ میں نے کئی اسلامی کتابیں پڑھیں اور موٹیویشنل لیکچرز سننے لگا۔ 2017 سے میں قاسم علی شاہ صاحب کو فالو کر رہا تھا۔ ان کے لیکچرز اور کتابوں نے میری سوچ پر گہرا اثر ڈالا، اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ موجودہ فضول رسومات درست نہیں ہیں اور انہیں ختم ہونا چاہیے۔

کیونکہ انقلاب ہمیشہ اپنے آپ سے شروع ہوتا ہے۔ جب تک انسان خود کو نہیں بدلتا، وہ دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا۔
جون 2020 میں میرے بھانجے سراج کی شادی طے ہوئی۔ گھر والوں کے اصرار پر میں نے شادی کے تمام انتظامات سنبھالنے کی ذمہ داری لی، لیکن ایک شرط رکھی: شادی میں نہ "ایکو ساؤنڈ” ہوگا، نہ "مووی”۔ میری دلیل یہ تھی کہ جب اس وقت پوری دنیا لاک ڈاؤن میں تھی، یہاں تک کہ خانہ کعبہ بھی کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا، تو ہمیں بھی سادگی اختیار کرنی چاہیے۔
اس کے علاوہ، اسلام بھی ایسی فضول رسومات کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے ایک اور پہلو پر بھی غور کیا: آج کل کی رسم و رواج کی وجہ سے غریب گھرانوں کی خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہی ہیں۔ ہر شادی میں نئے کپڑے بنوانے کی دوڑ لگ جاتی ہے، اور پہلے والے کپڑے دوبارہ نہیں پہنے جاتے۔ اس فضول خرچی کی دوڑ میں غریب عورتیں احساسِ محرومی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ شاید اسی لیے اسکولوں میں یونیفارم کا نظام رکھا گیا ہے تاکہ امیر و غریب کا فرق نہ رہے اور برابری کا پیغام ملے۔
میرے گھر والوں نے بہت زور لگایا کہ "ایکو ساؤنڈ” اور "مووی” کی اجازت دے دوں، یہاں تک کہ میرے مرحوم والد (اللہ پاک انہیں جنت میں جگہ دے) کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن میں اپنے مؤقف پر قائم رہا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ وہی رسومات جاری رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے، میں شادی میں شریک نہیں ہوں گا۔ اس بات پر پورا گھر خاموش ہو گیا۔ آخرکار، شادی سادگی سے ہوئی اور "ایکو ساؤنڈ” اور "مووی” کا کوئی انتظام نہیں ہوا۔
شروع میں میرے گھر والے اور رشتہ دار ناراض ہوئے، کہتے رہے کہ میں نے مزہ خراب کر دیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اللہ پاک نے میرے فیصلے کو سچ ثابت کر دیا۔ اب میرے پورے خاندان نے میری بات کو تسلیم کر لیا ہے، اور جب بھی ہمارے خاندان میں کوئی شادی ہوتی ہے، وہ سادگی سے ہوتی ہے، جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ دو ماہ پہلے میرے دوسرے بھانجے اصغر کی شادی بھی اسی سادگی سے ہوئی، اور پورا خاندان خوش تھا۔
ہاں، کچھ لوگ اب بھی ہمیں عجیب سمجھتے ہیں کیونکہ ہم زمانے کے مطابق نہیں چلتے، لیکن ہر کسی کی اپنی سوچ ہے۔
ایک بار میرے ساتھ کام کرنے والے ایک پنجابی ساتھی نے کہا:
"سر، عجیب زمانہ اور عجیب رسم و رواج ہو گئے ہیں۔”
میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کے علاقے میں کیا ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہاں شادیاں ایسے ہوتی ہیں کہ خواتین فوٹیج کے لیے الگ الگ لباس تیار کرتی ہیں، جیسے ہمارے ہاں جنازے کے لیے الگ لباس رکھا جاتا ہے۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی کہ پورے پاکستان میں ایک جیسا حال ہے — فضول خرچی حد سے بڑھ چکی ہے، ہر کوئی دوسرے کو دیکھ کر تقلید کر رہا ہے، اور کسی کو صحیح غلط کی پرواہ نہیں رہی۔
یہ میرا مشاہدہ تھا، جو میں نے شیئر کیا۔ میرا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں بلکہ صرف یہ پیغام دینا ہے کہ خدا کے لیے یہ فضول رسومات ختم کریں، ورنہ مہنگائی کے اس دور میں خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے زندگی مزید تنگ ہو جائے گی۔ ضروریات تو غریبوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں، اور خواہشات بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں۔

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button