خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ مَیں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
مقامِ گُفتگو کیا ہے اگر مَیں کیمیاگر ہوں
یہی سوزِ نفَس ہے، اَور میری کیمیا کیا ہے!
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں
نہ پُوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوبِ* فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے
نوائے صُبحگاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!
علامہ محمد اقبال