لاہور
۱۷ دسمبر ۱۴ء
مخدومی! السلام علیکم
کل خط لکھ چکا ہوں۔ مگر آپ کے اس شعر کی داد دینا بھول گیا
جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں
عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں
سبحان اللہ! کس قدر باریک اور گہرا شعر ہے۔ ہیگل جس کو جرمنی والے افلاطون سے بڑا فلسفی تصور کرتے ہیں اور تخیل کے اعتبار سے حقیقت میں ہے بھی افلاطون سے بڑا۔ اس کا تمام فلسفہ اسی اصول پر مبنی ہے۔ آپ نے ہیگل کے سمندر کو ایک قطرے میں بند کر دیا۔ یا یوں کہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے۔
ہیگل لکھتا ہے کہ اصولِ تناقص ہستیِ محدود کی زندگی کا راز ہے اور ہستیِ مطلق کی زندگی میں تمام قسم کے تناقص جو ہستیِ محدود کا خاصہ ہیں، گداختہ ہو کر آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔
کیمبرج کی تاریخِ ہندوستان کے لیے جو مضمون اردو لٹریچر پر مجھے لکھنا ہے، اُس میں اس شعر کا ضرور ذکر کروں گا۔ اسی رنگ کے فلسفیانہ اشعار اور بھی لکھیے کہ خود بھی لذت اٹھاؤں اور اوروں کو بھی اس لذت میں شریک کروں۔ آج مہاراجہ کشن پرشاد کا خط آیا تھا۔ معلوم ہوا کہ خواجہ نظامی حیدرآباد سے اورنگ آباد چلے گئے۔ خلد آباد کی زیارت مقصود ہو گی۔ میں بھی وہاں گیا تھا اور عالمگیر علیہ الرحمۃ کے مزارِ پاک پر حاضر ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی بھی ساتھ تھے۔ کہنے لگے، میں قنات کے اندر نہ جاؤں گا (مزار کے گرد قنات تھی) کہ میری ڈاڑھی غیر مشروع ہے۔ والسلام
مخلص: محمد اقبال