لاہور
۳۰ مئی ۳۰ء
جنابِ من! السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مجھ کو آپ کے خط نے بہت متاثر کیا۔ مجھ کو یہ خیال ہمیشہ تکلیفِ روحانی دیتا ہے کہ آنے والی مسلمان نسل کے قلوب ان واردات سے یکسر خالی ہیں جن پر میرے افکار کی اساس ہے۔ لیکن آپ کے خط سے مجھے ایک گونہ مسرت ہوئی۔ اِن اشعار کی دقت زبان کی وجہ سے نہیں۔ میں تو اتنی فارسی ہی نہیں جانتا کہ مشکل زبان لکھ سکوں۔ دقت جو کچھ بھی ہے، واردات و کیفیات کے فقدان کی وجہ سے ہے، اگر کیفیات کا احساس ہو تو مشکل زبان بھی سہل ہو جاتی ہے۔ بہرحال آپ کی کوشش ایک مبارک فال ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جذباتِ انسانی کی تخلیق یا بیداری کے کئی ذرائع ہیں۔ جن میں سے ایک شعر بھی ہے۔ اور شعر کا تخلیقی یا ایقاطی اثر محض اس کے مطالب و معانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں شعر کی زبان اور زبان کے الفاظ کی صوت اور طرزِ ادا کو بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اس واسطے ترجمے یا تشریح سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو مترجم کے زیرِ نظر ہوتا ہے۔ بہرحال اس تشریح میں آپ کو ان لوگوں کی کیفیات و خیالات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جن کے قلوب میں آپ پیام کے جذبات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات پیام کے مطالعہ سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
اِس کے علاوہ یہ بھی گُر کی بات ہے کہ مجھ سے مشورہ نہ کیجیے۔ جس شعر کا جو اثر آپ کے دل پر ہوتا ہے، اُسی کو صاف و واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ مصنف کا مفہوم معلوم کرنا بالکل غیر ضروری بلکہ مضر ہے۔ ہاں ایک ضروری شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ جو تشریح آپ کریں، اس کی تائید شعر کی زبان سے ہونی چاہیے۔ ایک ہی شعر کا اثر مختلف قلوب پر مختلف ہوتا ہے بلکہ مختلف اوقات میں بھی مختلف ہوتا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ قلوبِ انسانی کی اصلی فطرت اور انسانی تعلیم و تربیت اور تجربہ کا اختلاف ہے۔ اگر کسی شعر سے مختلف اثرات مختلف قلوب پر پیدا ہوں تو یہ بات اسی شعر کی قوت اور زندگی کی دلیل ہے۔ زندگی کی اصل حقیقت تنوع اور گوناگونی ہے۔ والسلام
مخلص
محمد اقبال