اردو غزلیاتشعر و شاعریشکیب جلالی

میں اس گلی میں اکیلا تھا

شکیب جلالی کی ایک اردو غزل

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کرا گرا ہی نہیں
اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت
نہ جانے رت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب
کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت
ہوا کا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ
مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے بہت
یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرہ
میں اپنے دشت سے گزارا تو بھید پائے بہت
جو موتیوں کی طلب نے کبھی اداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت
بس ایک رات ٹھہرنا ہے کیا گلہ کیجے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت
جمی رہے گی نگاہوں پہ تیرگی دن بھر
کہ رات خواب میں تارے اتر کے آئے بہت
شکیبؔ کیسی اڑان، اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے
کہ زیرِ دام جب آئے تھے ، پھڑپھڑائے بہت

شکیب جلالی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button