- Advertisement -

بکھر جانے سے پہلے

عدیم ہاشمی کی اردو نظم

بکھر جانے سے پہلے
حبس کے قیدی مکاں
اور منجمد تاریکیاں
زیست کا محور بنی ہیں
شب کی رقاصہ کی زخمی پائلوں کی لے کے سنگ
جن گنت تنہائیاں
اور زرد پھولوں میں گم ہوتی ہوا کی سسکیاں
اب نہ لوٹے گا کبھی
اس یاد کا بے تاب موسم
اب کے گر لوٹیں گی تو لوٹیں گی فقط خاموشیاں
دفن ہوتے جا رہے ہیں
خاموشی کی دھول میں
حرف چہرے زندگی اور روح کی پرچھائیاں
چلے آؤ
میرے ہمراہ تھے جب تم
تیرا احساس کم کم تھا
مجھے معلوم ہی کب تھا
تیرا ہونا تیری موجودگی کیا ہے
کبھی تیری جدائی کے خلا کی تیرگی اور دکھ
کسی لمحے کی آہٹ سے
جھلکتا تھا
تو پل دو پل
تیری چاہت مچلتی تھی
میرے دل میں
تیرے ہونے کی شدت جاگ اٹھتی تھی
مگر اک اجنبی پاگل انا اکثر ہمیں
واپس بلاتی تھی
ہم اپنے بند کمروں میں پلٹ جاتے تھے
لیکن یہ بہت پہلے کی باتیں ہیں
اور اب تو بیتنے والے تہی ایام
ویرانی زمانے کی
ہماری روح افسردہ
تمہاری آس میں گم ہے
اداسی اور تنہائی
تجھے واپس بلاتی ہے
جہاں آگے نکل آئے ہو تم
مجھ کو نظر بھی اب نہیں آتے
بہت پیچھے
عجب اک درد کی بستی ہے
میں جس کا مکیں ہوں
بے لب و لہجہ صدا کی قید میں
دن کاٹتا ہوں
اب پلٹ آؤ
جدائی کے خلا کی تیرگی
چاروں طرف سے
جسم و جاں پر وار کرتی ہے
چلے آؤ
سر بیماری دل
درد کی حالت بگڑتی ہے
میرے اندر
کوئی بستی اجڑتی ہے

عدیم ہاشمی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عدیم ہاشمی کی اردو غزل