رُکے ہوئے ہیں قافلے
کوئی لپک سی دُور سے
جگا رہی ہے خوف کے
پرانے زرد سلسلے
پکارتی ہیں اُس طرف سے
وحشتوں کی بدلیاں
بچی کھچی رفاقتوں کی
جھلملاتی تتلیاں
مرے پڑاؤ سے پرے
مری حدوں کے اُس طرف
بہت اندھیری رات میں
کھلی ہوئی ہیں غم گسار
ساعتوں کی ڈوریاں
الم نواز دھڑکنوں کے درمیاں
عجیب سی لکیر ہے
تو حاشیے کے اُس طرف
رُکی ہوئی،
جھکی ہوئی،
دُکھی ہوئی …
پکارتی ہے دُور سے
مجھے مرے وجود کی
صدا …!!! …نہیں
نہیں یہ میرا وہم ہے …
گلناز کوثر