آہی گیا وہ مجھ کو لحد میں اُتارنے
غفلت ذرا نہ کی مرے غفلت شعار نے
اب تک اسیرِ دامِ فریبِ حیات ہوں
مجھ کو بھُلا دیا مرے پروردگار نے
او بےنصیب دن کے تصور سے خوش نہ ہو
چولا بدل لیا ہے شبِ انتظار نے
برسوں فریبِ عشق دیا اک حسین کو
اس دل نے، ہاں اسی دلِ ناکردہ کار نے
سب کیفیت بہشت کی، رندوں پہ کھول دی
کوثر کے ایک ساغرِ ناخوش گوار نے
اغیار سے بھی کرنے لگے وعدہ ہائے حشر
عادت بگاڑ دی ہے مرے اعتبار نے
نازک مزاج پھول کا مُنہ سُرخ ہوگیا
چٹکی سی ایک لی تھی، نسیم بہار نے
نوحہ گروں کو بھی ہے گلا بیٹھنے کی فکر
جاتا ہوں آپ اپنی اجل کو پکارنے
دیکھا نہ کاروبارِ محبت کبھی حفیظ
فرصت کا وقت ہی نہ دیا کاروبار نے
حفیظ جالندھری