وزیرستان
کہاں سے آگے حدِ عدو ہے
کہاں پہ لشکر کی پہلی صف ہے
کہاں ہدف ہے
کسی پہ کھلتا نہیں ہے کچھ بھی
تمام منظر بدل چکے ہیں
صفوں کی ترتیب جاچکی ہے
نہ میمنہ ہے ، نہ میسرہ ہے
نہ قلب کوئی ، نہ اب عقب ہے
کہاں پہ لشکر کی پہلی صف ہے؟
فلک پرایا ہی تھامگر اب زمیں بھی اپنی نہیں رہی ہے
کسی کو کوئی خبر نہیں ہے کہ کون سا رُخ ، رُخِ عدو ہے
چہار سمتوں سے دشمنی ہے
عَلَم وہی ہیں ، رَجز وہی ہیں
ہجومِ نعرہ زناں بھی اک سا
مری پکاروں میں ، تیرے نعروں میں اسم اک سے
یہ میں گرا ہوں کہ تو گرا ہے
کسی پہ کھلتا نہیں کدھر ہے
فلک کہاں ہے؟ زمیں کدھر ہے
غبار آلود منظروں میں تمام سمتیں الٹ گئی ہیں
خلط ملط ہو کے میں کدھر ہوں
کہیں غلط ہو کے تو کدھر ہے
وہ وعدۂ ناوفا کدھر ہے؟
خدا کدھرہے؟
شہزاد نیّرؔ