- Advertisement -

عشووں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے

ایک اردو غزل از اصغر گونڈوی

عشووں کی ہے نہ اس نگہ فتنہ زا کی ہے
ساری خطا مرے دلِ شورش ادا کی ہے

مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
کچھ ابتداء کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے

کھِلتے ہی پھول باغ میں پژمردہ ہو چلے
جنبشِ رگ بہار میں موجِ فنا کی ہے

ہم خستگانِ راہ کو راحت کہاں نصیب
آواز کان میں ابھی بانگِ درا کی ہے

ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوشِ آرزو
اب تو یہی زبان مرے مدّعا کی ہے

لطفِ نہانِ یار کا مشکل ہے امتیاز
رنگت چڑھی ہوئی ستمِ برملا کی ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
احمد ہمیش کی اردو نظم