فلسفہ ماہ رمضان
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔رحمتوں کی گھنگھور گھٹائیں اہل ایمان پر چھم چھم برسنے والی ہیں۔۔ہر ایک اس ابررحمت میں دلوں کے داغ دھو ئے گا۔پروردگار کے فضل سے دلوں پر لگے زنگ اتریں گے۔رحمت باری تعالیٰ اپنے جوبن پر ہو گی۔گنہگاروں کی سیئیات حرف غلط کی طرح نامہ اعمال سے مٹ جائیں گی اور ان کی جگہ حسنات کے انبار لگنے شروع ہوجائیں گے۔نیکیوں کو ایسی ضربیں لگیں گی کہ دنیا کا کوئی پیمائشی آلہ اس کو گن نہیں سکے گا۔راقم نے لکھا تھا۔
بخشش کرانے دوستو،رمضان آ گیا
جنت لے جانے دوستو،رمضان آ گیا
وہ دل جو بے آباد ہیں غافل ہیں بے ضمیر
وہ دل جگانے دوستو،رمضان آ گیا
رو رو کے اس کے در پر سجدے کرو ادا
رب سے ملانے دوستو،رمضان آ گیا
ابر کرم ہے اوج پر، رحمت کی بارشیں
مچلو دیوانے دوستو،رمضان آ گیا
جس آگ کی خوراک ہیں اِنس و حَجر اویسؔ
اس سے بچانے دوستو،رمضان آ گیا
اللہ پاک کا ارشاد ہے۔(مفہوم) "روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا”۔اور ایک موقع پر ارشاد ہے کہ "روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں "۔(یعنی میں خود اس کا ہو جاؤں گا)۔ذرا سوچیے،یہ کتنے بلند مقام و مرتبے کی بات ہے۔جسے پروردگار کہے کہ میں اس سے اتنا خوش ہوں کہ خود اسے مل جاؤں گا۔اس عبادت کی اتنی بڑی جزا کیوں ہے؟غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ باقی سب عبادات نماز،زکوٰۃ اور حج وغیرہ،جن کی اپنی حقانیت اور اہمیت مسلّم ہے۔لیکن ان عبادات کے دوران انسان کی نیت اور کیفیت میں عجیب طرح کے خیالات وارد ہو جاتے ہیں۔نماز پڑھتے ہوئے اگر یہ احساس ہو جائے کہ ارد گرد بیٹھے لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں اور محض اس خیال سے نماز کے ارکان کی ادائیگی درست طرح سے ہونے لگے تو ایسی نماز میں ریا کاری کا احتمال ذیادہ ہو جائے گا۔زکوۃ دیتے وقت اگر یہ خیا ل پیشِ نظر رہے کہ لوگوں پر میری دولت کی دھاک بیٹھ جائے گی،لوگ مجھے سخی خیال کریں گے تو اس ناپاک خیال کی ملاوٹ سے زکوۃ کے فیوض و برکات سے پاکیزگی کی روح نکل جائے گی۔حج کرتے ہوئے اگر یہ سوچ دل ودماغ میں جگہ بنا لے کہ اب یہ معاشرہ میری بہت عزت کرے گا،میری بات پر اعتبار بڑھ جائے گا اور لوگ مجھے حاجی کہیں گے تو اس نے اتنی عظیم عبادت کی جزا محض پھوٹی کوڑیوں کے عوض ضائع کر دی۔
ایسے شیطانی خیالات ہماری عبادات سے ا صل خلوص چھین لیتے ہیں۔لیکن روزہ ایسی عبادت ہے کہ جس میں اس قسم کے خیالات کے لئے کوئی گنجایش ہی نہیں،روزہ دار کے دل و دماغ میں صرف اور صرف اللہ پاک کی رضا طلبی کا جوش،خوشنودی کا حصول،اطاعت اور فرمانبرداری ہوتی ہے۔اور کوئی شیطانی یا دنیاوی خیال اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتا۔کیونکہ اگر ایسا ہو تو اسے دن میں سینکڑوں ایسے مواقع ملتے ہیں جب وہ تنہائی میں اطمینان سے کھا اور پی بھی سکتا ہے اور لوگوں کے سامنے روزہ دار ہونے کا تاثر بھی دے سکتا ہے۔لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔اس کا ایمان ہے کہ وہ ذات خلوت میں بھی اسے اسی طرح دیکھ رہی ہے جیسے جلوت میں دیکھتی ہے۔روزہ اگر نہیں ہے تو نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر خلوص نیت اور خشوع و خضوع سے ہے۔اور صرف اس پاک ذات کے لیے ہے۔اس لئے اس عبادت کا مقام بہت بلند ہے۔اسی لئے تو اللہ پاک نے خاص طور پر فرما دیا کہ میں خود اس کی جزا دوں گا،حالانکہ ہر عمل کی جزا وہی تو دیتا ہے۔مگر روزے دار کو اتنی بڑی بشارت دی گئی کہ جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔روزے کے مقاصد جاننے سے بھی اس کی عظمت کا احساس ہو جاتا ہے۔ دنیا میں ہدایت کے لئے قرآن و حدیث موجود ہے اور باقی سب ہدایتیں کلام الہی و فرمان مصطفےٰؐ سے ہی ماخوذ ہیں۔رشد و ہدایت کے تمام چشمے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔اب ذرا دیکھئے کہ ا س منبع رشد و ہدایت سے نصیحت لینے کے لئے کون سی شے ناگزیر ہے؟اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کا تعارف کرواتے ہوئے کہا:(مفہوم)”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی ریب نہیں ہے۔اس میں ہدایت ہے تقوی رکھنے والوں کے لئے "(سورۃ بقرہ:2)۔یعنی یہ ہدایت سب کے نصیب میں نہیں ہے۔اس بحر ہدایت سے وہی مستفید ہو گا جو تقوی اختیار کرے گا۔ایک اور بات جو لوازم حیات میں سے اشد ضروری ہے وہ ہے عزت۔جس شخص کی معاشرے میں عزت نہیں،اس کا جینا محال ہو جاتا ہے۔اس عزت و تکریم کی جب بات کی تو فرمایا۔(مفہوم)”تم میں سے مکرم وہ ہے جو تقوی میں بڑھ کر ہے”(سورۃ حجرات:13)۔یہاں بھی یہی نکتہ سمجھ میں آیاکہ اگر چاہتے ہو کہ باعزت رہو تو تقوی بہت ضروری ہے۔
پھر ایمان کی شرط بیان کرتے ہوئے بھی اللہ پاک نے فرمایا:(مفہوم) اے ایمان والو! اللہ اور اللہ کے رسول ؐسے آگے مت بڑھ جاؤ۔اے ایمان والو! نبی پاک ؐ کی آواز سے اپنی آواز کو بلند مت کرو،انؐ سے ایسے کلام مت کرو جیسے تم آپس میں کرتے ہو،ورنہ تمہارے سارے اعمال غارت کر دیے جائیں گے اور تمہیں شعور بھی نہیں ہو گا۔اور وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو نبی پاکؐ کی آوازوں سے پست رکھتے ہیں،اللہ نے ان کے دلوں کو تقوی کے لئے چن لیا ہے۔(سورۃ حجرات:1تا3)۔غور کریں کہ ادب مصطفیؐ کتنا ضروری ہے کہ اسی سے ایمان کی سلامتی ہے،اور اگر یہ ادب چھوٹ گیا تو سارے نیک اعمال ضائع ہو جائیں گے،بالکل ایسے جیسے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی صورت میں اور حالت کفر میں آ جانے سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں،ورنہ حالت ایمان میں اگر گناہ ہو بھی جائے تو گناہ لکھا جاتا ہے،نیکیاں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں،اور وہ گناہ بھی پروردگار کے فضل سے توبہ کے زریعے مٹ جاتے ہیں چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہو جائیں۔غور طلب نکتہ یہ ہے کہ توبہ جس شعور سے آتی ہے،اللہ فرماتے ہیں میں تم سے وہ شعور بھی چھین لوں گا۔تم توبہ کر ہی نہیں سکو گے۔استغفراللہ۔
یہ ادب بارگاہ مصطفیؐ کی اہمیت ہے اور یہ بھی اس وقت نصیب ہو گا جب اللہ پاک تمہارے دلوں کو تقوی کی توفیق مرحمت فرمائے گا۔تو پتہ چلتا ہے کہ مومن کی جتنی شانیں ہیں،اس کا جتنا عروج ہے،دنیا اور آخرت میں وہ جس منصب پر فائز ہو گا،رشد و ہدایت،سطوت و عروج کے حصول کا راستہ تقوی سے ہی ممکن ہے۔تو آئیے اللہ پاک کے اس حکم نامے میں موجود گنجینہ گوہر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مفہوم آیت ہے "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں،جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے،تا کہ تم متقی بن جاؤ”(سورۃ بقرہ: 183)۔روزہ دار کے لئے دنیا و آخرت کی کتنی بڑی ضمانت ہے کہ وہ تقوی جس کے باعث اس کی شرافت، لطافت،عنایت، عبادت،ریاضت،وراثت،نسبت،قسمت،وساطت اور ہدایت قائم ہے وہ اسے فقط روزہ رکھنے سے مل جاتی ہے۔ایسی تمام نوازشات سے اللہ تبارک وتعالی کی اپنے بندے کے لئے بے انتہا محبت جھلکتی ہے۔یہ ہماری خوش بختی ہے کہ رخش عمر جو ہر لحظہ رواں دواں ہے،وہ ہمیں آخری پڑاؤ پر پہنچنے سے پہلے ایسے مواقع فراہم کر رہا ہے جس سے ہم دنیا جہان کی سعادتیں سمیٹ سکیں۔ہمیں رمضان المبارک کا احترام کرنا چاییے اوردل و جان سے اس عظیم نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔رب رحمٰن سے دعا ہے کہ وہ ان بابرکت ساعتوں کے ایک ایک لمحے سے دامے،درمے،قدمے اور سخنے مستفید ہونے کی توفیق عطافرمائے۔اوریہ ہماری زندگیوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کر دے۔ہماری روح پر ایسے اثرات مرتب ہوں جو آخری سانس تک اور اس کے بعد آنے والی ہمیشہ کی زندگی میں بھی ہم پر سایہ فگن رہیں،آمین
اویس خالد