ہو فرقتوں میں وصال کیسے
یہ خواہشوں کے ہیں جال کیسے
جب اپنی منزل پہ آ گئے ہم
پھر آ رہے ہیں خیال کیسے
جو چھین کر لے گیا ہے سب کچھ
وہ لوٹ آئے گا سال کیسے
بکھر گئے ہیں جو ٹوٹ کر ہم
تو بن گئے بے مثال کیسے
یہ ہر گھڑی ٹوٹ پھوٹ سے ہم
رکھیں گے خود کو بحال کیسے
جواب سُن تو لیے ہیں اُس کے
پھر آنکھ میں ہیں سوال کیسے؟
جو ٹوٹ جائے اگر تعلّق
کریں پھر اُس کو بحال کیسے
یہ دیکھ سنگت میں تیری آ کر
ہوئے ہیں ہم تو نڈھال کیسے
ناہید ورک