گھر کے در و دیوار میری آواز اور بابا کی خاموشی سے مانوس تھے _ یہ نہیں کہ بابا بولتے نہیں تھے ،ان کی ہر بات نپی تلی اور موزوں ہوتی لیکن الفاظ جذبات سے عاری لگتے _بابا ایک با رعب ،با وقار ،توانا جسم اور شخصیت کے مالک تھے _ ان کا تانبے جیسا صحت مند چہرہ ، سفید براق داڑھی انہیں سب میں ممتاز کرتا ،ہاتھ میں سنہری چھڑی ، جس کو بھی چھو لیتی سونا کر دیتی _ ماں تھی تو سہی پر بابا کی چھڑی انہیں سونا نہ کر سکی ،وہ مٹی ہی رہیں اس لئے مجھے جنم دینے کے بعد گہرے پانیوں میں اتر گئیں _ جب وہ صبح گھر سے باہر نکلتے توسب جھک جھک کر ان کی تعظیم کرتے _ گھر سے کچھ فاصلے پر ایک چبوترہ تھا جہاں بابا بیٹھتے تھے _ وہاں اکثر جھمگھٹا رہتا سب اپنے مسائل لے کر آتے ان پر بحث جاری رہتی اور بابا کا فیصلہ آخری ہوتا _ قریب ہی ماں کا خوبصورت سا مجسمہ آویزاں تھا جس کے رنگ نمی اور ہوا نے پھیکے کر دیئے تھے –
میرا گھر سمندر کنارے دونوں اطراف سے اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرا ایک چھوٹا سا نیلے پانیوں کا پیالہ نما جزیرہ تھا ، قدرتی کٹاؤ نے ایک دائرے کی شکل میں اس جزیرے کو جنم دیا تھا _ جزیرے اور سمندر کے درمیان دھند نے ایک مہین سا پردہ ڈال رکھا تھا _ دن کو پانی سنہرا ، چاندنی راتوں میں چاندی ہو جاتا اور اماؤس کی کالی راتوں میں پانی پر مہیب سائے حرکت کرتے نظر آتے _ ہم سب کو ان راتوں میں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی _ جزیرے پر سمندر کی طرح طوفان نہیں آتے تھے ، لیکن جھکڑ زور چلتے اور کبھی کبھی پیالہ چھلک جاتا مگر تہہ میں بیٹھی ریت کئی سر بستہ راز اپنے اندر چھپاۓ رکھتی _
میری دنیا تو یہ تاروں سے بھرا نیلا آسمان ،پانی پر تیرتی چاندنی اور پاؤں کے نیچے گیلی ریت تھی _ میرا رنگ و روپ ماں جیسا تھا ، اسی کی طرح رنگوں سے سجا ، اس کا رنگیں چولا میرے بدن کی زینت تھا،سنہرے بال اور چمکتی رنگت _صبح سے شام تک کسی آزاد پنچھی کی طرح اپنی ہم جولیوں کے سنگ پانی سے کھیلتی ، اٹکھیلیاں کرتی ، قریب کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر بیٹھ کر سمندر کا نظارہ کرتی اور سیپیاں اکھٹی کرتی رہتی _ بابا کبھی کسی کام سے ادھر آ نکلتے تو مجھے خوش دیکھ کر مسکراتے ، اپنی چھڑی سے پانی کو چیر کر پانی کے نیچے چھپے خزانوں کی ایک جھلک دکھاتے – کبھی کبھی میں ضد کرتی تو اپنے کندھے پر بٹھا کر سمندر کے گہرے پانیوں کی طرف بھی لے جاتے _ مگر ایک گھمبیر سی خاموشی ان کا احاطہ کئیے رہتی _ایک نا معلوم سی اداسی ان کی آنکھوں میں تیرتی رہتی _
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ان کی پیشانی کی لکیروں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا _ پہلے پہل تو کوئی اکا دکا ماہی گیروں کی کشتی سمندر میں نظر آتی تھی_ پر عجیب بات یہ تھی کہ کچھ دنوں کے بعد کشتی کے نا خدا اسے چھوڑ کر غائب ہو جاتے _ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بڑے بڑے پہاڑ جیسے بحری جہاز سمندر کی سطح پر تیرنے لگے تو بابا زیادہ مضطرب ہوتے ان کے تفکر اور پریشانی میں اضافہ ہو جاتا _ ہمیں خاص حکم ہوتا کہ ساحل کی طرف نہ جائیں _ ان جہازوں پر سے نائیلون کے تاروں سے بنے جال سمندر کی تہہ میں ڈالے جاتے اور ریتیلی زمین میں چھپے خزانے ان میں سمیٹ لئے جاتے _ سب دور سے بیٹھے سمندر کولٹتے دیکھتے رہتے _ دیو ھیکل آہنی ہاتھوں نے مستقل گہرے پانیوں پر قبضہ کر لیا تھا _ ان کا شور اور رات وہاں سے آتی بہَت تیز روشنی ہمیں سونے نہیں دیتیں _ خوف نے جیسے ہم سب کو جکڑ رکھا تھا _ میں سوچتی کہ بابا اپنی سنہری چھڑی سے کام کیوں نہیں لیتے _ ایک دفعہ گھمائیں گے تو یہ پہاڑ بھر بھری مٹی بن کر جھڑ جائیں گئے _
میرا اکھلوتا دوست ، ہمدرد اور محافظ روز ہی کوئی نہ کوئی نئی خبر لے کر آتا اور خوب مرچ مصالحہ لگا کر مجھے سناتا _ وہ اکثر تیر کر سمندر کے قریب چلا جاتا تھا – میں بھی ضد کرتی ساتھ چلنے کی لیکن وہ بابا کی حکم عدولی نہیں کر سکتا تھا اور پھر میری چلبلی طبیعت سے بھی واقف تھا ،مجھے ہر نئے مقام اور شے کی کھوج چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ،کبھی کبھی تو میں تیرتی دور نکل جاتی وہ حلق پھاڑ کر مجھے روکتا رہتا _ ” تم مجھے کسی دن مرواؤ گی _” ارررے کچھ نہیں ہوتا _” میں بابا سے تمہاری سفارش کر دوں گی _” میری اس بے نیازی پر وہ اپنی گول گول آنکھیں پھیلا کر مجھے دیکھتا اور سر کو نفی میں ہلاتا _
“تمھیں سردار کے غصے کا پتا نہیں ہے _ میری ٹانگیں چیر کر رکھ دیں گے _” اور میں تاسف سے اس کی پتلی پتلی انگنت ٹانگوں کی طرف دیکھتی اور اس سے شرط لگا کر آگے نکل جاتی ، وہ نا چار بڑبڑاتا ،پیچھے ہو لیتا _
مجھے لگتا جیسے جیسے میں بڑی ہو رہی ہوں یہ جگہ سکڑ تی جا رہی ہے _ سمندر کے اس پار جانے کی خواہش زور پکڑتی جا رہی تھی _ ایسا کیا ہے اس پار جس سے بابا اتنے خوف زدہ ہیں ؟ مجھے محسوس ہوتا کہ میری سوچیں جنگلی خود رو بیل ہیں جو خود بخود چاروں جانب بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے _ دل و دماغ اس بیل کی شاخوں نے جکڑ رکھا ہے اور جلد ہی میرے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی او ر میں ان کے بڑھتے ہوے قدم روک نہیں پاؤں گی _
ایک اور بات جو مجھے ہمیشہ متجسس رکھتی تھی وہ کچھ گیت تھے جو اکثر چاندنی راتوں میں گا ئے جاتے اور ان کا سحر مجھے اپنی طرف کھینچتا اور میں کئی دنوں تک سحر زدہ رہتی ، اور میرا من اس لے پر رقصاں _ عجب قسم کی ھوک ،سوز و گداز ، اور پکار ہوتی _ اکثر چاندنی راتوں میں کنواریاں جزیرے کے اس پار گہرے پانیوں میں اترتی تھیں، چند محافظ لاٹھیاںلئے ان کے ساتھ کنارے تک جاتے _ گیت کی لے پانی پر تیرتی میرے دل میں اتر جاتی _ میں اکثر سوچتی کہ یہ کس لئے ان راتوں میں جاتی ہیں ،پر بابا کہتے ابھی میری عمر کم ہے ،سیانی ہو جاؤں تو سمجھ جاؤں گی _
وہ بھی مجھے کچھ نہیں بتاتا _ بس بابا کی طرح ٹال دیتا لیکن اس کے چہرے پر خوف کا سایہ سا لہرا جاتا _ میرے اندر بے چینی اور بے کلی بڑھتی جا رہی تھی – ایک آتش فشاں تھا جو پھٹ پڑنے کو تیار تھا _
”لو تم یہاں بیٹھی ہو _” اس کی آواز نے میری سوچ کا دائرہ قطع کر دیا _
“کیا ہے ؟”
“تمھیں بت کی طرح بیٹھے دیکھا تو ادھر چلا آیا ” سردار کے کام سے سمندر کی طرف جا رہا تھا _ میری آنکھوں کی چمک بڑھ گئی _ میں بھی ساتھ جاؤں گی _
“نہیں .! نہیں ..! تم میرے ساتھ نہیں جا سکتیں _” لیکن میں ہٹ دھرمی سے اپنی بات پر اڑ ی رہی _ بیچارہ چکرا گیا – مشکل سے راضی ہوا ،”تم ٹیلے کے پیچھے ہی رہو گی بس ! “ٹھیک ..! “.میں نے سر ہلا دیا _ وہ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ میں بھی پیچھے ہو لی _ بحری جہاز سمندر کی سطح پر اپنے پنجے گاڑے کھڑا تھا _ تجسس کے مارے میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں _ وہ چیختا اور چلاتا رہا اور میں اس پر چڑھ گئی _ ایک نئی انجانی دنیا میری آنکھوں کے سامنے تھی _ قریب سے اتنا ہیبت ناک نہیں دکھ رہا تھا _ مضبوط چمکتے فرش جن پر پیر پھسل جائیں _ عجیب و غریب مخلوق جن کی بولی میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی _ وہ جب چلتے تو زمین پر پاؤں گھسیٹ کر یا اسے روند کر چلتے _ ان کا سر جسم سے کافی فاصلہ پر تھا ، انھیں جھک کر نیچے دیکھنا پڑتا _ وہ دیو ھیکل ہاتھ جو بنا رکے سمندر کی تہہ کو کھنگال رہے تھے ،جب پانی سے باہر آتے تو ان میں تڑپتے ہوۓ جسم ہوتے ،ان کی چیخ و پکار کا ان پر کوئی اثر نہ ہوتا _ اب مجھے بابا کی پریشانی کا اندازہ ہو رہا تھا _ ان گہرے پانیوں پر ان کا حکم نہیں چلتا تھا _ میں یہ سب دیکھنے میں اتنی مصروف تھی کہ مجھے اپنے دوست کی چیخیں دیر سے سنائی دیں_ مڑ کر دیکھا تو وہ ہوا میں جھول رہا تھا _ میری بھی چیخ نکل گئی _ تھوڑی دیر میں اسے فرش پر پٹخ دیا گیا _ جانے کتنے جسم اسی طرح تڑپ رہے تھے _ میں نے اپنی جگہ سے جست لگائی ، اس کی ٹانگ کو پکڑ کر کھینچا اور پانی میں چھلانگ لگا دی _ اس کے اوسان خطا تھے ،میری گرفت میں بری طرح چلا رہا تھا _ بڑی مشکل سے اسے پرسکون کیا _ وہ بار بار یہ ہی کہتا کہ آئیندہ میری باتوں میں نہیں آے گا _ واپسی کا سارا راستہ خاموشی میں گزرا ،وہ رہ رہ کر میری جانب دیکھتا اور خوف سے جھر جھری لیتا _
مجھے اس مخلوق کا بے رحمی سے شکار کرنا دکھی کر گیا _ یہ سرا سر ظلم ہے _ بابا کی باتیں اب میری سمجھ میں آنے لگی تھیں ،ان کا مضطرب اور متفکر رہنا ، رات کو گھنٹوں جاگنا اور ہمیں گہرے پانیوں میں جانے سے منع کرنا _ لیکن سمندر کے دوسرے کنارے کو دیکھنے کی چاہ کسی طرح کم نہ ہوتی تھی _ پر کیا کروں اپنے اس تخیل کا جو مجھے دن میں بھی کئی ان دیکھے جہانوں کی سیر کراتا _ خواب بنتے بنتے میں ان میں جینے لگی تھی _
اس رات چبوترے پر دیر تک مجلس رہی _ میں پوری طرح تو نہیں سمجھ پائی کہ کیا فیصلہ ہوا لیکن اتنی سن گن ملی کہ پورے چاند کی رات بابا کی معیت میں سیانوں کا ایک جتھا سمندر کی طرف جاۓ گا _ میں بھلا کب پیچھے رہنے والی تھی ،سو اگلی رات خاموشی سے پیچھے چل پڑی _ چاند پانی کی سطح پر ڈوبتا ،ابھرتا ساتھ ساتھ چل رہا تھا _ ماحول اتنا سحر انگیز تھا کہ میں اس میں کھو سی گئی _ چاندنی راتوں میں گا ئے جانے والے گیت کے بول میرے کانوں میں پڑے _ یہ گیت اس وقت ؟؟ .کس نے کنواریوں کو سمندر کی سمت جانے دیا ؟ میں ایک بڑے سے پتھر کی اوٹ سے جھانکنے لگی _ اس جہاز سے کشتیاں اتاری جا رہی تھیں اور ماہی گیر اس میں بیٹھے جیسے کسی سحر میں گرفتار ، سمندر میں گیت گاتی کنواریوں کا پیچھا کر رہے تھے اور گھاٹی کی جانب جا رہے تھے _ اس کے بعد کا منظر میرے ہوش اڑا گیا ! ماہی گیروں کو رسیوں سے باندھ دیا گیا تھا _ وہ خوبصورت کنواریاں اپنے نوکیلے خوف ناک دانت ان کی گردن میں پیوست کئے ان کا خون چوس رہی تھیں _ ان میں سے جو رسیاں تڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتا اسے باقی ہر کارے چیر پھاڑ ڈالتے _ بابا ایک پتھر پر کھڑے ساری کاروائی دیکھ رہے تھے _ ان کے چہرے پر چھائی سفاکی ،ان کا یہ روپ دیکھ کر میرا دل دکھ اور کرب سے پھٹنے لگا _ تو یہ تھی اصل حقیقت .! بابا کہتے تھے تم سیانی ہو جاؤ تو سب سمجھ جاؤ گی _ یہ وہ جھانسا اور فریب تھا جس سے اس پار سے آنے والی مخلوق کا شکار کیا جاتا رہا _ میں منہ پر ہاتھ رکھے بڑی مشکل سے اپنی چیخوں اور سسکیوں کو روک رہی تھی _ مجھے کسی کے ہاتھ کا لمس اپنے کندھے پر محسوس ہوا ،گھبرا کر پیچھے دیکھا تو میرا دوست کھڑا تھا ،اس کی گول گول آنکھوں میں میرا کرب لرز رہا تھا _” تمھیں اسی لئے یہاں آنے سے منح کرتا تھا _” لیکن _ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟ میرے بابا — اور ایسی بربریت ! مجھے یقین نہیں آتا _ اس رات مجھ پر اپنی ماں کا گھر چھوڑ کر چلے جانا سمجھ میں آیا _ تو کیا ؟؟ میں بھی سیانی ہو کر ایسی ہی خوں خوار اور وحشی بن جاؤں گی _ نہیں – نہیں مجھے اب یہاں نہیں رہنا _ کیا میرے بھی ایسے خوف ناک دانت ہوں گے ؟؟ ،یہ سوچ کر ہی مجھے جھر جھری آ گئی _
اپنی دنیا کو میں پرکھ چکی تھی ، مجھے دونوں دنیاؤں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا _ اس مخلوق کو قریب سے دیکھنے کی شدید خواہش مجھے سمندر کے اس پار جانے پر مجبور کر رہی تھی _ میں نے فیصلہ کر لیا کہ جب سمندر میں کھڑا جہاز یہاں سے کوچ کرے گا تو میں اس جگہ کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دوں گی _ ساری رات شش و پنچ میں گزری لیکن سورج کی پہلی کرن نمودار ہونے سے پہلے میں فیصلہ کر چکی تھی -اور گھر سے نکل پڑی _ میرا دوست مجھے روکتا رہا _ آنے والے وقت میں اپنا اتنا گھناونا روپ دیکھ کر مجھے خود سے نفرت سی ہونے لگی _ جہاز کئی دن کی مسافت کے بعد سمندر کے اس پار اترا _ اجنبی زمین پر پہلا قدم رکھا تو لڑکھڑا گئی ،یہاں کی زمین ٹھوس اور سخت ،فضا میں کثافت اور نا معلوم سی اداسی اور افسردگی پھیلی ہوئی تھی _، ہر چہرہ سپاٹ اور جذبات سے عاری تھا – ساحل کے کنارے خود کو کانسی کے مجسمے کی صورت ایک پتھر پر ایستادہ دیکھا تو چونک گئی _” کیا یہ میں ہوں بد رنگ ساکت ؟ “.تری سے خشکی کا سفر بہت کٹھن تھا _
میں اپنا ست رنگی لبادہ اور آواز پیچھے چھوڑ آئی تھی _ چاندنی راتوں کے گیت گونگے ہو چکے تھے _
سڑک کے کنارے سرمئی سیمنٹ اور پتھروں کی بنی سپاٹ اور سرد سی عمارت کی دس سیڑھیاں چڑھ کر وہ ، شیشے کے خود کار دروازے تک پہنچ گئی ، اس پار کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا _ اس خودکار دروازے کے بعد ایک اور دروازہ تھا جو استقبالیہ حصے میں کھلتا تھا _ دائیں جانب ایک چھوٹا سا استقبالیہ کاؤنٹر ، جدید طرز کے سرمئی کیو بیکل صوفے اور بائیں جانب آنے والوں کے اندراج کے لئے بنے چھوٹے چھوٹے کیبن ، جہاں شیشے کی دیوار کے دوسری طرف بیٹھی لڑکی ، سب کے کاغذات کی جانچ پڑتال کر کے انہیں مطلوبہ راستے کی نشان دہی کرتی _
اسے کلینک کا استقبالیہ حصہ خاص طور پر پسندتھا ، دائیں جانب کی پوری دیوار میں ایک فش ایکیوریم نصب تھا ،جس کے صاف و شفاف پانی میں مختلف اقسام کی مچھلیاں تیرتی رہتی تھیں ،اسے ایک ست رنگی مچھلی ( Molly ) سے خاص انسیت تھی جو چند لمحوں کے بعدایکیوریم کی دیوار کو آ کر چومتی جیسے اسے اپنے اس قید خانے سے بے حد پیار ہو _” چومتی تھی یا اس دیوار پر سر مارتی تھی -کیا وہ با ہر نکلنا چاہتی تھی “؟؟ ایکیوریم سے ناک چیپکاے وہ انہماک سے مچھلیوں کو دیکھ رہی تھی _ یہاں پانی پر سکو ن تھا _ بس آج وہ ست رنگی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی _” کیا وہ یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ؟؟ اس خیال نے اس کے اندر ہلچل مچا دی _ _ سنا ہے ان مچھلیوں کی یاداشت تین سیکنڈ سے زیادہ کی نہیں ہوتی _ مگر تین سیکنڈ کی قید تین ہزار سکینڈ کی آزادی پر بھاری ہوتی ہے _ قید سے رہائی اس کی موت کا پروانہ بھی تو ہو سکتی ہے _
” ہائے سویٹی .! اب تمہاری باری ہے _” نرس کی آواز پر وہ چونک گئی _ آخری نظر مچھلیوں پر ڈالی اور لاسٹ اسٹیج کیمو تھراپی کے لئے چل پڑی
فرحین جمال