دیکھ لو پھر یہ ستارہ نہیں روشن ہونا
بجھ گیا میں تو دوبارہ نہیں روشن ہونا
کشتیوں والے مری رمز سمجھتے ہوں گے
ایسے ہی مجھ پہ کنارہ نہیں روشن ہونا
ہو بھی سکتا ہے یہ آئینہ کسی پر روشن
ہاں مگر سارے کا سارا نہیں روشن ہونا
مجھ میں اک آگ ہے جو آپ بھڑک اٹھے گی
اس طرح مجھ کو گوارا نہیں روشن ہونا
ہم جب آئے تو یہاں پہلے سے طے تھا سب کچھ
یعنی ایمان ہمارا نہیں روشن ہونا
کاش یہ اہلِ سخن بات کی تہہ تک پہنچیں
صرف لفظوں سے نظارہ نہیں روشن ہونا
لاکھ ترکیب کیے جاتے ہوں مٹی سے چراغ
کار گر مان یہ گارا نہیں روشن ہونا
اک یہی بات تو روشن ہے ازل سے آزر
عشق میں سود و خسارہ نہیں روشن ہونا
دلاور علی آزر