ہارتا چلا گیا
لوگوں کو صرف جینے میں مزا آتا ہے۔ لیکن اسے جیت کر ہار دینے میں لطف آتا ہے۔ جیتنے میں اسے کبھی اتنی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن ہارنے میں البتہ اسے کئی دفعہ کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ شروع شروع میں بینک کی ملازمت کرتے ہوئے جب اسے خیال آیا کہ اس کے پاس بھی دولت کے انبار ہونے چاہئیں تو اس کے عزیز و اقارب اور دوستوں نے اس خیال کا مضحکہ اڑایا تھا مگر جب وہ بینک کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی چلا گیا تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس نے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی روپے پیسے سے مدد کرنا شروع کردی۔ بمبئی میں اس کے لیے کئی میدان تھے مگر اس نے فلم کے میدان کو منتخب کیا۔ اس میں دولت تھی۔ شہرت تھی۔ اس میں چل پھر کر وہ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ سکتا تھا۔ اور دونوں ہی ہاتھوں سے لٹا بھی سکتا تھا۔ چنانچہ ابھی تک اسی میدان کا سپاہی ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں روپیہ اس نے کمایا اور لٹا دیا۔ کمانے میں اتنی دیر نہ لگی۔ جتنی لٹانے میں۔ ایک فلم کے لیے گیت لکھے۔ لاکھ روپے دھروا لیے۔ لیکن ایک لاکھ روپوں کو رنڈیوں کے کوٹھوں پر، بھڑووں کی محفلوں میں، گھوڑ دوڑ کے میدانوں اور قمار خانوں میں ہارتے ہوئے اسے کافی دیر لگی۔ یک فلم بنایا۔ دس لاکھ کا منافع ہوا۔ اب اس رقم کو ادھر ادھر لٹانے کا سوال پیدا ہوا۔ چنانچہ اس نے اپنے ہر قدم میں لغزش پیدا کرلی۔ تین موٹریں خریدلیں۔ ایک نئی اور دو پرانی جن کے متعلق انھیں اچھی طرح علم تھا کہ بالکل ناکارہ ہیں۔ یہ اس کے گھر کے باہر گلنے سڑنے کے لیے رکھ دیں جو نئی تھی۔ اس کو گیراج میں بند کرادیا۔ اس بہانے سے کہ پٹرول نہیں ملتا۔ اس کے لیے ٹیکسی ٹھیک تھی۔ صبح لی۔ ایک میل کے بعد رکوا لی کسی قمار خانے میں چلے گئے۔ وہ اڑھائی ہزارروپے ہار کر دوسرے روز باہر نکلے ٹیکسی کھڑی تھی۔ اس میں بیٹھے اور گھر چلے گئے اور جان بوجھ کر کرایہ ادا کرنا بھول گئے۔ شام کو باہر نکلے اور ٹیکسی کھڑی دیکھ کر کہا۔
’’ارے نابکار، تو ابھی تک یہیں کھڑا ہے۔ چل میرے ساتھ دفتر۔ تجھے پیسے دلوادوں۔ دفتر پہنچ کر پھر کرایہ چکانا بھول گئے اور۔ اوپر تلے دو تین فلم کامیاب ہوئے جتنے ریکارڈ تھے سب ٹوٹ گئے۔ دولت کے انبار لگ گئے۔ شہرت آسمان تک جا پہنچی۔ جھنجھلا کر اس نے اوپر تلے دو تین ایسے فلم بنائے۔ جن کی ناکامی اپنی مثال آپ ہو کے رہ گئی۔ اپنی تباہی کے لیے کئی دوسروں کو بھی تباہ کردیا۔ لیکن فوراً ہی آستینیں چڑھائیں جو تباہ ہو گئے۔ ان کو حوصلہ دیا۔ اور ایک ایسا فلم تیار کردیا جو سونے کی کان ثابت ہوا۔ عورتوں کے معاملے میں بھی ان کی ہار جیت کا یہی چکر کار فرما رہا ہے۔ کسی محفل سے یا کسی کوٹھے پر سے ایک عورت اٹھائی۔ اس کو بنا سنوار کر شہرت کی اونچی گدی پر بیٹھا دیا اور اس کی ساری نسوانیت مسخر کرنے کے بعد اسے ایسے موقعے بہم پہنچائے کہ وہ کسی دوسرے کی رگدن میں اپنی بائیں حمائل کردے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور بڑے بڑے عشق پیشہ خوبصورت جوانوں سے مقابلہ ہوا۔ سردھڑ کی بازیاں لگیں۔ سیاست کی بساطیں بچھیں۔ لیکن وہ ان تمام خار دار جھاڑیوں میں ہاتھ ڈال کر اپنا پسندیدہ پھول نوچ کرلے آیا۔ دوسرے دن ہی اس کو اپنے کوٹ میں لگایا اور کسی رقیب کو موقع دے دیا کہ وہ جھپٹا مار کر لے جائے۔ ان دنوں جب وہ فارس روڈ کے ایک قمار خانے میں لگا تار دس روز سے جارہا تھا۔ اس پر ہارنے ہی کی دھن سوار تھی۔ یوں تو اس نے تازہ تازہ ایک بہت ہی خوبصورت ایکٹرس ہاری تھی اور دس لاکھ روپے ایک فلم میں تباہ کردیے تھے۔ مگر ان دو حادثوں سے اس کی طبیعت سیر نہیں ہوئی تھی۔ یہ دو چیزیں بہت ہی اچانک طور پر اس کے ہاتھ سے نکل گئی تھیں۔ اس کا اندازہ اس دفعہ غلط ثابت ہوا تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ روز فارس روڈ کے قمار خانے میں ناپ تول کر ایک مقررہ رقم ہار رہا تھا۔ ہر روز شام کو اپنی جیب میں دو سو روپے ڈال کروہ پون پل کا رخ کرتا۔ اس کی ٹیکسی ٹکھائیوں کی جنگلہ لگی دوکانوں کی قطار کے ساتھ ساتھ چلتی اور وہ جا کر بجلی کے ایک کھمبے کے پاس رک جاتی۔ اپنی ناک پر موٹے موٹے شیشوں والی عینک اچھی طرح جماتا۔ دھوتی کی لانگ ٹھیک کرتا اور ایک نظر دائیں جانب دیکھ کر جہاں لوہے کے جنگلے کے پیچھے ایک نہایت ہی بد شکل عورت ٹوٹا ہوا آئینہ رکھے سنگار میں مصروف ہوتی اوپر بیٹھک میں چلا جاتا۔ دس روز سے وہ متواتر فارس روڈ کے اس قمار خانے میں دو سو روپیہ ہارنے کے لیے آرہا تھا۔ کبھی تو یہ روپے دو تین ہاتھوں ہی میں ختم ہو جائے اور کبھی ان کو ہارتے ہارتے صبح ہو جاتی۔ گیارھویں روز بجلی کے کھمبے کے پاس جب ٹیکسی رکی تو اس نے اپنی ناک پر موٹے موٹے شیشوں پر والی عینک جما کر اور دھوتی کی لانگ ٹھیک کرکے ایک نظر دائیں جانب دیکھا تو اسے ایک دم محسوس ہوا کہ وہ دس روز سے اس بدشکل عورت کو دیکھ رہا ہے حسب دستور ٹوٹا ہوا آئینہ سامنے رکھے لکڑی کے تخت پر بیٹھی سنگار میں مصروف تھی۔ لوہے کے جنگلے کے پاس آکر اس نے غور سے اس ادھیڑ عمر کی عورت کو دیکھا۔ رنگ سیاہ، جلد چکنی، گالوں اور ٹھوڑی پر نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے سوئی سے گندھے ہوئے دائرے جو چمڑی کی سیاہی میں قریب قریب جذب ہو گئے تھے۔ دانت بہت ہی بدنما، مسوڑھے پان اور تمباکو سے گلے ہوئے۔ اس نے سوچا اس عورت کے پاس کون آتا ہو گا؟۔ لوہے کے جنگلے کی طرف جب اس نے ایک قدم اور بڑھایا تو وہ بدشکل عورت مسکرائی۔ آئینہ ایک طرف رکھ کر اس نے بڑے ہی بھونڈے پن سے کہا۔
’’کیوں سیٹھ رہے گا؟‘‘
اس نے اور زیادہ غور سے اس عورت کی طرف دیکھا جسے اس عمر میں بھی امیدتھی کہ اس کے گاہک موجود ہیں۔ اس کو بہت حیرت ہوئی۔ چنانچہ اس نے پوچھا
’’بائی تمہاری کیا عمر ہو گی؟‘‘
یہ سن کر عورت کے جذبات کو دھکا سا لگا۔ منہ بسور کر اس نے مراٹھی زبان میں شاید گالی دی۔ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ چنانچہ اس نے بڑے خلوص کے ساتھ اس سے کہا۔
’’بائی مجھے معاف کردو۔ میں نے ایسے ہی پوچھا تھا۔ لیکن میرے لیے بڑے اچنبھے کی بات ہے۔ ہر روز تم سج دھج کر یہاں بیٹھتی ہو۔ کیا تمہارے پاس کوئی آتا ہے؟‘‘
عورت نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے پھر اپنی غلطی محسوس کی اور اس نے بغیر کسی تجسس کے پوچھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
عورت جو پردہ ہٹا کر اندر جانے والی تھی رک گئی۔
’’گنگوبائی۔ ‘‘
’’گنگو بائی۔ تم ہر روز کتنا کما لیتی ہو؟‘‘
اس کے لہجے میں ہمدردی تھی۔ گنگو بائی لوہے کے سلاخوں کے پاس آگئی۔
’’چھ سات روپے۔ کبھی کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
’’چھ سات روپے اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
گنگو بائی کے یہ الفاظ دہراتے ہوئے ان دو سو روپوں کا خیال آیا جو اس کی جیب میں پڑے تھے اور جن کو وہ صرف ہار دینے کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اسے معاً ایک خیال آیا۔
’’دیکھو گنگو بائی۔ تم روزانہ چھ سات روپے کماتی ہو۔ مجھ سے دس لے لیا کرو۔ ‘‘
’’رہنے کے؟‘‘
’’نہیں۔ لیکن تم یہی سمجھ لینا کہ میں رہنے کے دے رہا ہوں‘‘
یہ کہہ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس روپے کا ایک نوٹ نکال کر سلاخوں میں سے اندر گزار دیا۔
’’یہ لو۔ ‘‘
گنگو بائی نے نوٹ لے لیا۔ لیکن اس کا چہرہ سوال بنا ہوا تھا۔
’’دیکھو گنگو بائی، میں تمہیں ہر روز اسی وقت دس روپے دے دیا کروں گا لیکن ایک شرط پر‘‘
’’سرت؟‘‘
’’شرط یہ ہے کہ دس روپے لینے کے عبد تم کھانا وانا کھا کر اندر سو جایا کرو۔ رات کو میں تمہاری بتی جلتی نہ دیکھوں۔ ‘‘
گنگو بائی کے ہونٹوں پر عجیب و غریب مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’ہنسو نہیں۔ میں اپنے وچن کا پکار رہوں گا۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ اوپر قمار خانے میں چلا گیا۔ سیڑھیوں میں اس نے سوچا مجھے تو یہ روپے ہارنے ہی ہوتے ہیں۔ دو سو نہ سہی ایک سو نوے سہی۔ ‘‘
کئی دن گزر گئے۔ ہر روز حسبِ دستور اس کی ٹیکسی شام کے وقت بجلی کے کھمبے کے پاس رکتی۔ دروازہ کھول کروہ باہر نکلتا۔ موٹے شیشوں والی عینک میں سے دائیں جانب گنگو بائی کو آہنی سلاخوں کے پچیھے تخت پر بیٹھی دیکھتا۔ اپنی دھوتی کی لانگ ٹھیک کرتا جنگلے کے پاس پہنچتا اور دس روپے کا ایک نوٹ نکال کر گنگو بائی کو دے دیتا۔ گنگو بائی اس نوٹ کو ماتھے سے چھو کر سلام کرتی اور وہ ایک سو نوے ہارنے کے لیے اوپر کوٹھے پر چلا جاتا۔ اس دوران میں دو تین مرتبہ روپیہ ہارنے کے بعد جب وہ رات کو گیارہ بجے یا دو تین بجے نیچے اترا تو اس نے گنگو بائی کی دکان بند پائی۔ ایک دن حسبِ معمول دس روپے دے کر جب وہ کوٹھے پر گیا تو دس بجے ہی فارغ ہو گیا۔ تاش کے پتے کچھ ایسے پڑے کہ چند گھنٹوں ہی میں ایک سو نوے روپوں کا صفایا ہو گیا۔ کوٹھے سے نیچے اتر کر جب وہ ٹیکسی میں بیٹھنے لگا تو اس نے کیا دیکھا کہ گنگو بائی کی دکان کھلی ہے اور وہ لوہے کے جنگلے کے پیچھے تخت پر یوں بیٹھی ہے جیسے گاہکوں کا انتظار کررہی ہے ٹیکسی میں سے باہر نکل کروہ اس کی دکان کی طرف بڑھا۔ گنگو بائی نے اسے دیکھا تو گھبرا گئی لیکن وہ پاس پہنچ چکا تھا۔
’’گنگو بائی یہ کیا؟‘‘
گنگو بائی نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’بہت افسوس ہے تم نے اپنے وچن پورا نہ کیا۔ میں نے تم سے کہا تھا۔ رات کو میں تمہاری بتی جلتی نہ دیکھوں۔ لیکن تم یہاں اس طرح بیٹھے ہو۔ ‘‘
اس کے لہجے میں دکھ تھا۔ گنگو بائی سوچ میں پڑ گئی۔
’’تم بہت بری ہو۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ واپس جانے لگا۔ گنگو بائی نے آواز دی۔
’’ٹھہرو سیٹھ۔ ‘‘
وہ ٹھہر گیا۔ گنگو بائی نے ہولے ہولے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’میں بہت بُری ہوں۔ پر یہاں چانگلی بھی کون ہے؟۔ سیٹھ تم دس روپے دے کر ایک کی بتی بجھاتے ہو۔ ذرا دیکھو تو کتنی بتیاں جل رہی ہں۔ ‘‘
اس نے ایک طرف ہٹ کر گلی کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہوی جنگلہ لگی دکانوں کی طرف دیکھا۔ ایک نہ ختم ہونے والی قطار تھی اور بے شمار بتیاں رات کی کثیف فضا میں سُلگ رہی تھیں۔
’’کیا تم یہ سب بتیاں بجھا سکتے ہو؟‘‘
اس نے اپنی عینک کے موٹے موٹے شیشوں میں سے پہلے گنگو بائی کے سر پر لٹکتے ہوئے روشن بلب کو دیکھا۔ پھر گنگو بائی کے مٹمیلے چہرے کو اور گردن جھکا کر کہا۔
’’نہیں۔ گنگو بائی۔ نہیں۔ ‘‘
جب وہ ٹیکسی میں بیٹھا تو اس کی جیب کی طرح اس کا دل بھی خالی تھا۔ شیر آیا شیر آیا دوڑنا اونچے ٹیلے پر گڈریئے کا لڑکا کھڑا، دور گھنے جنگلوں کی طرف منہ کیے چلا رہا تھا۔
’’شیر آیا شیر آیا دوڑنا۔ ‘‘
بہت دیر تک وہ اپنا گلا پھاڑتا رہا۔ اس کی جوان بلند آواز بہت دیر تک فضاؤں میں گونجتی رہی۔ جب چلّا چلّا کر اس کا حلق سوکھ گیا تو بستی سے دو تین بڈھے لاٹھیاں ٹیکتے ہوئے آئے اور گڈریئے کے لڑکے کو کان سے پکڑ کر لے گئے۔ پنچائت بلائی گئی۔ بستی کے سارے عقلمند جمع ہوئے اور گڈریئے کے لڑکے کا مقدمہ شروع ہوا۔ فرد جرم یہ تھی کہ اس نے غلط خبر دی اور بستی کے امن میں خلل ڈالا۔ لڑکے نے کہا۔
’’میرے بزرگو، تم غلط سمجھتے ہو۔ شیر آیا نہیں تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ آ نہیں سکتا؟‘‘
جواب ملا۔
’’وہ نہیں آسکتا۔ ‘‘
لڑکے نے پوچھا۔
’’کیوں؟‘‘
جواب ملا۔
’’محکمہ جنگلات کے افسر نے ہمیں چٹھی بھیجی تھی کہ شیر بڈھا ہو چکا ہے‘‘
لڑکے نے کہا۔
’’لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے تھوڑے ہی روز ہوئے کایا کلپ کرایا تھا۔ ‘‘
جواب ملا۔
’’یہ افواہ تھی۔ ہم نے محکمہ جنگلات سے پوچھا تھا اور ہمیں یہ جواب آیا تھا کہ کایا کلپ کرانے کی بجائے شیر نے تو اپنے سارے دانت نکلوا دیے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی زندگی کے بقایا دن اہنسا میں گزارنا چاہتا ہے۔ ‘‘
لڑکے نے بڑے جوش کے ساتھ کہا۔
’’میرے بزرگو، کیا یہ جواب جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ ‘‘
سب نے بیک زبان ہو کر کہا۔
’’قطعاً نہیں۔ ہمیں محکمہ جنگلات کے افسر پر پورا بھروسہ ہے۔ اس لیے کہ وہ سچ بولنے کا حلف اٹھا چکا ہے۔ ‘‘
لڑنے کے پوچھا۔
’’کیا یہ حلف جھوٹا نہیں ہوسکتا؟‘‘
جواب ملا۔
’’ہرگز نہیں۔ تم سازشی ہو، ففتھ کالمسٹ ہو، کمیونسٹ ہو، غدار ہو، ترقی پسند ہو۔ سعادت حسن منٹو ہو۔ لڑکا مسکرایا۔
’’خدا کا شکر ہے کہ میں وہ شیر نہیں جو آنے والا ہے۔ محکمہ جنگلات کا سچ بولنے والا افسر نہیں۔ میں۔ ‘‘
پنچائت کے ایک بوڑھے آدمی نے لڑکے کی بات کاٹ کر کہا۔
’’تم اسی گڈریئے کے لڑکے کی اولاد ہو جس کی کہانی سالہا سال سے اسکولوں کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھائی جارہی ہے۔ تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو اس کا ہوا تھا۔ شیر آئے گا تو تمہاری ہی تِکا بوٹی اڑا دے گا۔ ‘‘
گڈریئے کا لڑکا مسکرایا۔
’’میں تو اس سے لڑوں گا۔ مجھے تو ہر گھڑی اس کے آنے کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ تم کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ شیر آیا شیر آیا والی کہانی جو تم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہو آج کی کہانی نہیں۔ آج کی کہانی میں تو شیر آیا شیر آیا کا مطلب یہ ہے کہ خبردار رہو۔ ہوشیار رہو۔ بہت ممکن ہے شیر کے بجائے کوئی گیدڑ ہی ادھر چلا آئے مگر اس حیوان کو بھی توروکنا چاہیے۔ ‘‘
سب لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
’’کتنے ڈر پوک ہو تم۔ گیدڑ سے ڈرتے ہو‘‘
گڈریئے کے لڑکے نے کہا۔
’’میں شیر اور گیدڑ دونوں سے نہیں ڈرتا۔ لیکن ان کی حیوانیت سے البتہ ضرور خائف رہتا ہوں اور اس حیوانیت کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ہمیشہ تیار رکھتا ہوں۔ میرے بزرگو، اسکولوں میں سے وہ کتاب اٹھا لو۔ جس میں شیر آیا شیر آیا والی پرانی کہانی چھپی ہے۔ اس کی جگہ یہ نئی کہانی پڑھاؤ۔ ایک بڈھے نے کھانستے کھنکارتے ہوئے کہا۔
’’یہ لونڈا ہمیں گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہمیں راہِ مستقیم سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ‘‘
لڑکے نے مسکرا کر کہا۔
’’زندگی خطِ مستقیم نہیں ہے میرے بزرگو۔ ‘‘
دوسرے بڈھے نے فرطِ جذبات سے لرزتے ہوئے کہا۔
’’یہ ملحد ہے۔ یہ بے دین ہے، فتنہ پردازوں کا ایجنٹ ہے۔ اس کو فوراً زنداں میں ڈال دو۔ ‘‘
گڈریئے کے لڑکے کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ اسی رات بستی میں شیر داخل ہوا۔ بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ بستی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ باقی شیر نے شکار کرلیے۔ مونچھوں کے ساتھ ہوا خون چوستا سب شیر زندان کے پاس سے گزرا تو اس نے مضبوط آہنی سلاخوں کے پیچھے گڈریئے کے لڑکے کو دیکھا اور دانت پیس کر رہ گیا۔ گڈریئے کا لڑکا مسکرایا۔
’’دوست یہ میرے بزرگوں کی غلطی ہے۔ ورنہ تم میرے لہو کا ذائقہ بھی چکھ لیتے۔ ‘‘
سعادت حسن منٹو