قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر (حصہ سوم)
پلوشہ کا آذربائیجان کا سفر
پلوشہ کی بائیک ایران کی سرحد پار کرتے ہوئے پارس آباد سے آذربائیجان میں داخل ہوئی۔ امیگریشن کا عمل سخت تھا، اور افسران کی کڑی نگاہوں نے اسے کھٹکایا۔
"یہ بائیک کہاں سے لائی ہو؟” ایک افسر نے پوچھا۔
"افغانستان سے۔”
"سفر کی اجازت کس نے دی؟”
"اپنی روح نے۔”
پلوشہ کی صاف گوئی نے افسر کو چپ کروا دیا، مگر دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران بحث و تکرار چلتی رہی۔ بالآخر، ضروری مہر لگنے کے بعد وہ آذربائیجان کی سرزمین پر قدم رکھ سکی۔ سرد ہوا نے اس کا استقبال کیا، اور وہ اپنی بائیک کو سمندر کے کنارے ہائی وے پر ڈال کر باکو کی جانب روانہ ہوئی۔
سمندر کی نمکین خوشبو اور ہائی وے کی کھلی فضا نے پلوشہ کے دل کو سکون دیا۔ اس کی بائیک رفتار پکڑ رہی تھی، اور وہ آزادی کے اس لمحے کو محسوس کر رہی تھی۔ باکو زیادہ دور نہیں تھا، مگر کارا داغ کے قریب پہنچ کر اسے عجیب متلی کا احساس ہوا۔
اس نے اپنی بائیک ایک کنارے روکی اور قریب موجود لوگوں سے اسپتال کا پتہ پوچھا۔ کارا داغ کا مقامی اسپتال قریب ہی تھا۔ وہاں پہنچ کر وہ ایمرجنسی روم میں داخل ہوئی اور اپنا مسئلہ بتایا۔
ڈاکٹر، ایک نرم گو انسان، نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا، "یہ سفر کی تھکان ہے، کچھ نہیں۔ ایک انجکشن لگا دیتا ہوں اور دوائیں دے دیتا ہوں تاکہ مزید کوئی پریشانی نہ ہو۔”
پلوشہ نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور روم سے باہر نکلنے لگی کہ ایک عمر رسیدہ نرس نے اسے روک لیا۔
"بیٹی، کہاں سے آرہی ہو؟” نرس نے پوچھا۔
"افغانستان سے۔ دنیا گھومنے نکلی ہوں، اپنی روح کو کھوجنے،” پلوشہ نے جواب دیا۔
نرس، جس کا نام گوکچے خاتون تھا، اپنی تجربہ کار آنکھوں سے پلوشہ کو دیکھ رہی تھی۔ "تمہیں ایک ٹیسٹ کروانا چاہیے۔”
"کیسا ٹیسٹ؟” پلوشہ نے حیرت سے پوچھا۔
"تمہاری حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ کچھ اور بھی ہے۔”
پلوشہ نے بڑی مشکل سے رضامندی دی۔ دس منٹ بعد، گوکچے خاتون رپورٹ لے کر آئی اور اسے دیکھتے ہی کہا، "بیٹی، تم حاملہ ہو۔”
یہ سن کر پلوشہ حیران و پریشان ہو گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوش ہو یا اداس۔ اس کے دل میں ایک عجیب میٹھا سا احساس جاگا کہ وہ ماں بننے والی ہے، مگر فوراً یہ سوال ذہن میں آیا، "یہ بچہ کس کا ہے؟”
گوکچے خاتون نے اس کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے کہا، "بیٹی، ایک رات میرے گھر مہمان بنو۔ میں تمہاری مدد کروں گی، اور تمہارے سفر میں آسانی ہوگی۔
گوکچے کے گھر پہنچ کر، نرس نے پلوشہ کے لیے گرم سوپ تیار کیا اور اسے دو مانع حمل گولیاں پیش کیں۔
"یہ گولیاں لے لو۔ تمہیں مستقبل میں ایسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میں تمہیں ان گولیوں کا ایک پیکٹ بھی دے دوں گی تاکہ آگے سفر میں کسی مشکل سے بچ سکو۔”
پلوشہ نے ہچکچاتے ہوئے گولیاں لیں اور سوپ کے ساتھ کھا لیں۔ گوکچے نے اسے رات بھر آرام کرنے کا مشورہ دیا اور خود اپنے کمرے میں چلی گئی۔
صبح، پلوشہ نے ناشتہ کیا اور خود کو تازہ دم محسوس کیا۔ گوکچے خاتون نے اسے دعائیں دیں اور کہا، "بیٹی، دنیا تمہارے لیے کھلی کتاب ہے۔ اسے پڑھو، سمجھو، اور آگے بڑھو۔”
پلوشہ نے شکریہ ادا کیا اور اپنی بائیک پر سوار ہو کر باکو کی جانب روانہ ہو گئی۔
"اب میری منزل باکو ہے، جہاں شاید نئی کہانیاں میرا انتظار کر رہی ہیں،” پلوشہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور بائیک کی رفتار بڑھا دی۔
شاکرہ نندنی