- Advertisement -

توبۃ النصوح – فصل چہارم

شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا ناول

فصل چہارم

نصوح اور چھوٹے بیٹے سلیم کی گفتگو

آج تو میاں بیوی میں یہ قول و اقرار ہوا۔ اگلے دن چھوٹا بیٹا سلیم ابھی سو کر نہیں اٹھا تھا کہ بیدارا نے آ جگایا کہ صاحب زادے اٹھیے، بالا خانے پر میاں بلاتے ہیں۔ سلیم کی عمر اس وقت کچھ کم دس برس کی تھی۔ سلیم نے جو طلب کی خبر سنی، گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی سے ہاتھ منہ دھو، ماں سے آ کر پوچھنے لگا: "اماں جان، تم کو معلوم ہے ابا جان نے کیوں بلایا ہے؟”

ماں : بھائی، مجھ کو تو کچھ خبر نہیں۔

سلیم: کچھ خفا تو نہیں ہیں؟

ماں ابھی تو کوٹھے پر سے بھی نہیں اترے۔

سلیم: بیدارا، تجھ کو کچھ معلوم ہے؟

بیدارا: میاں، میں اوپر لوٹا لینے گئی تھی۔ میاں اکیلے بیٹھے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں آنے لگی تو میاں نے آپ کا نام لیا اور کہا کہ ان کو بھیج دیجیو۔

سلیم: صورت سے کچھ غصہ تو نہیں معلوم ہوتا تھا؟

بیدارا: نہیں تو۔

سلیم: تو اماں جان، ذرا تم بھی میرے ساتھ چلو۔

ماں : میری گود میں لڑکی سوتی ہے۔ تم اتنا ڈرتے کیوں ہو، جاتے کیوں نہیں؟

سلیم: کچھ پوچھیں گے۔

ماں : جو کچھ پوچھیں گے تم اس کو معقول طور پر جواب دینا۔

غرض سلیم ڈرتا ڈرتا اوپر گیا اور سلام کر کے الگ جا کھڑا ہوا۔ باپ نے پیار سے بلا کر پاس بٹھا لیا اور پوچھا: کیوں صاحب، ابھی مدرسے نہیں گئے؟

بیٹا: جی، بس جاتا ہوں۔ ابھی کوئی گھنٹے بھر کی دیر اور ہے۔

باپ: تم اپنے بھائی جان کے ساتھ مدرسے جاتے ہو یا الگ؟

بیٹا: کبھی کبھار بھائی جان کے ساتھ چلا جاتا ہوں، ورنہ اکثر اکیلا جاتا ہوں۔

باپ: کیوں؟

بیٹا: اگلے مہینے امتحان ہونے والا ہے۔ چھوٹے بھائی جان اسی کے واسطے تیاری کر رہے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر کسی ہم جماعت کے یہاں چلے جاتے ہیں۔ وہاں ان کو دیر ہو جاتی ہے، تو پھر گھر بھی نہیں آتے۔ میں جاتا ہوں تو ان کو مدرسے میں پاتا ہوں۔

باپ: کیا اپنے گھر میں جگہ نہیں ہے کہ دوسروں کے یہاں جاتے ہیں؟

بیٹا: جگہ تو ہے، مگر وہ کہتے تھے کہ یہاں بڑے بھائی جان کے پاس ہر وقت گنجفہ اور شطرنج ہوا کرتا ہے، اطمینان کے ساتھ پڑھنا نہیں ہو سکتا۔

باپ: تم بھی شطرنج کھیلنی جانتے ہو؟

بیٹا: مہرے پہچانتا ہوں، چالیں جانتا ہوں، مگر کبھی خود کھیلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

باپ: مگر زیادہ دنوں تک دیکھتے دیکھتے یقین ہے کہ تم بھی کھیلنے لگو گے۔

بیٹا: شاید مجھ کو عمر بھر بھی شطرنج کھیلنی نہ آئے گی۔

باپ: کیوں کیا ایسی مشکل ہے؟

بیٹا: مشکل ہو یا نہ، میرا جی ہی نہیں لگتا۔

باپ: سبب؟

بیٹا: میں پسند نہیں کرتا۔

باپ: چوں کہ مشکل ہے اکثر مبتدی گھبرایا کرتے ہیں۔ مجھ کو یقین ہے کہ گنجفہ میں تمہاری طبیعت خوب لگتی ہو گی۔ وہ بہ نسبت شطرنج کے بہت آسان ہے۔

بیٹا: میں شطرنج کی نسبت کر گنجفہ کو زیادہ تر نا پسند کرتا ہوں۔

باپ: وہاں شطرنج میں طبیعت پر زور پڑتا ہے اور گنجفہ میں حافظہ پر۔

بیٹا: میری ناپسندیدگی کا کچھ خاص کر یہی سبب نہیں ہے، بلکہ مجھ کو سارے کھیل بُرے معلوم ہوتے ہیں۔

باپ: تمہاری اس بات سے مجھ کو تعجب ہوتا ہے اور میں تم سے تمہاری ناپسندیدگی کا اصلی سبب سننا چاہتا ہوں، کیوں کہ شاید اب سے پانچ یا چھ مہینے پہلے، جن دنوں میں باہر کے مکان میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے خود تم کو ہر طرح کے کھیلوں میں نہایت شوق کے ساتھ شریک ہوتے دیکھا تھا۔

بیٹا: آپ درست فرماتے ہیں۔ میں ہمیشہ کھیل کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا تھا، مگر اب تو مجھ کو ایک دلی نفرت ہو گئی ہے۔

باپ: آخر اس کا کوئی سبب خاص ہو گا۔

بیٹا: آپ نے اکثر چار لڑکوں کو کتابیں بغل میں دابے گلی میں آتے جاتے دیکھا ہو گا۔

باپ: وہی جو گورے گورے چار لڑ کے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ پھڈی جونتیاں پہنے، منڈے ہوئے سر، اونچے پاجامے، نیچی چولیاں۔

بیٹا: ہاں جناب وہی چار لڑ کے۔

باپ: پھر؟

بیٹا: بھلا آپ نے کبھی ان کو کسی قسم کی شرارت کرتے بھی دیکھا ہے؟

باپ: کبھی نہیں۔

بیٹا: جناب کچھ عجب عادت ان لڑکوں کی ہے۔ راہ چلتے ہیں تو گردن نیچی کیے ہوئے۔ اپنے سے بڑا مل جائے، جان پہچان ہو یا نہ ہو، ان کو سلام کر لینا ضرور، کئی برس سے اس محلے میں رہتے ہیں، مگر کانوں کان خبر نہیں۔ محلے میں کوڑیوں لڑ کے بھرے پڑے ہیں، لیکن ان کو کسی سے کچھ واسطہ نہیں۔

آپس میں اوپر تلے کے چاروں بھائی ہیں۔ نہ کچھ لڑتے، نہ کبھی جھگڑتے، نہ گالی بکتے، نہ قسم کھاتے، نہ جھوٹ بولتے، نہ کسی کو چھیڑتے، نہ کسی پر آواز کستے۔ ہمارے ہی مدرسے میں پڑھتے ہیں، وہاں بھی ان کا یہی حال ہے۔ کبھی کسی نے ان کو جھوٹی شکایت بھی تو نہیں کی۔ ڈیڑھ بجے ایک گھنٹے کی چھٹی ہوا کرتی ہے۔ لڑ کے کھیل کود میں لگ جاتے ہیں۔ یہ چاروں بھائی ایک پاس کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔

باپ: بھلا پھر؟

بیٹا: منجھلا لڑکا میرا ہم جماعت ہے۔ ایک دن میرا آموختہ یاد نہ تھا۔ مولوی صاحب نہایت ناخوش ہوئے اور اس کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ کم بخت گھر سے گھر ملا ہے۔ اسی کے پاس جا کر یاد کر لیا کر۔ میں نے جو پوچھا: "کیوں صاحب یاد کرا دیا کرو گے؟” تو کہا "یہ سرو چشم۔ ” غرض میں اگلے دن ان کے گھر گیا، آواز دی۔ انہوں نے مجھ کو اندر بلا لیا۔ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی سی عورت تخت پر جائے نماز بچھائے قبلہ رو بیٹھی ہوئی کچھ پڑھ رہی ہیں۔ وہ ان لڑکوں کی نانی ہیں۔ لوگ ان کو حضرت بی کہتے ہیں۔ میں سیدھا سامنے دالان میں اپنے ہم جماعت کے پاس جا بیٹھا۔ جب حضرت بی اپنے پڑھنے سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا، گو تم نے مجھ کو سلام نہیں کیا لیکن ضرور ہے کہ میں تم کو دعا دوں۔ جیتے رہو، عمر دراز، خدا نیک ہدایت دے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ میں غیرت کے مارے زمین میں گڑ گیا اور فوراً میں نے اٹھ کر نہایت ادب کے ساتھ سلام کیا۔ تب حضرت بی نے فرمایا کہ بیٹا، برا مت ماننا، یہ بھلے مانسوں کا دستور ہے کہ اپنے سے جو بڑا ہوتا ہے اس کو سلام کر لیا کرتے ہیں اور میں تم کو نہ ٹوکتی لیکن چوں کہ تم میرے بچوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو، اس سبب سے مجھ کو جتا دینا ضرور تھا۔ اس کے بعد حضرت بی نے مجھ کو مٹھائی دی اور بڑا اصرار کر کے کھلائی۔ مد توں میں ان کے گھر جاتا رہا۔ حضرت بی بھی مجھ کو اپنے نواسوں کی طرح چاہنے اور پیار کرنے لگیں اور مجھ کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتی تھیں۔ تبھی سے میرا سل تمام کھیل کی با توں سے کھٹا ہو گیا۔

باپ: یہ تو تم نے اچھا اختصار کیا۔ اجی، سب باتیں مجھ کو سناؤ۔ کیا کیا تم سے حضرت بی نے کہا۔

بیٹا: ہر روز آنے جانے میں ان لوگوں کے ساتھ خوب بے تکلف ہو گیا۔ مگر حضرت بی نے بس پہلے دن سلام نہ کرنے پر ٹوکا تھا پھر کوئی گرفت نہیں کی۔ باجودے کہ میں شوخی بھی کرتا تھا لیکن وہ خبر نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن مجھ سے اور ایک ہمسائے کے لڑ کے سے، باہر گلی میں کھیلتے کھیلتے، عین انہی کے دروازے پر لڑائی ہو پڑی۔ سخت کلامی کے بعد گالی گلوچ کی نوبت پہنچی۔ پھر مار کٹائی ہونے لگی۔ لڑکا مجھ سے تھا کمزور۔ ذرا اڑنگے پر چڑھا کو ایک پٹخنی دیتا ہوں، چاروں شانے چت۔ پھر تو میں اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹا اور بچا کو ایسے گھسے دیے کہ یاد ہی کیے ہوں گے اور لوگ چھڑا نہ دیتے تو میں اس کو ادھ موا کر ہی چکا تھا۔ بارے دو چار آدمیوں نے مجھ کو اس پر سے اتارا اور دو ایک نے میری پیٹھ بھی ٹھوکی کہ شاباش پٹھے شاباش۔ لیکن وہ لڑکا ایسا چیند باز تھا کہ پھر خم ٹھوک کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ پھر گتھ جاؤ، اتنے میں اندر سے اسی میرے ہم جماعت نے پوچھا: "کیوں جی، کس سے لڑ رہے تھے؟” میں نے کہا: "میاں ہی کنجڑے والا رمضانی، کمزور، مار کھانے کی نشانی۔ لیکن خدا کی قسم میں نے بھی آج اس کو ایسا رگڑا ہے کہ یاد ہی تو کرے گا۔ ” اس وقت تک غصہ اور طیش تو فرو ہوا ہی نہ تھا، نہیں معلوم کیا کیا میں نے بکا کہ سب گھر والوں نے سن کر آنکھیں نیچی کر لیں اور بڑی دیر تک سرنگوں بیٹھے رہے۔ آخر حضرت بی بولیں کہ سلیم، بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو ایسا پیارا لڑکا اور گن تیرے ایسے خراب۔ اس منہ سے ایسی باتیں ! آج کئی دن سے میں تجھ کو سمجھانے والی تھی۔ مگر اس وقت جو میں نے تیری گفتگو سنی، مجھ کو یقین ہو گیا کہ تجھ کو سمجھانا بے سود ہے۔ بڑا رنج تو مجھ کو اسی بات کا ہے کہ تو ہاتھ سے گیا گزرا ہوا۔ دوسرا کھٹکا یہ ہے کہ تو میرے لڑکوں کے پاس آتا جاتا ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ تیری خو بو کا ایک شمہ انہوں نے اختیار کیا تو میری طرف سے یہ جیتے جی مر لیے۔ ملنا جلنا تو بڑی بات ہے، اب محلہ مجھ کو چھوڑنا پڑا۔ اتنی بے حیائی ایسی بدزبانی! اول تو لڑنا اور پھر گلی کوچے میں اس پر ایسی موٹی موٹی گالیاں !”

میں : جناب خدا کی قسم، ہر گز میں نے پہل نہیں کی۔ وہ سر پر چڑھ کے مجھ سے لڑا۔

حضرت بی: بس اپنی قسموں کو بند کرو۔ میں قسم اور گالی دونوں کو برا سمجھتی ہوں۔ جس کو بے موقع بے محل خدا کا نام لینے میں باک نہیں، اس کو کسی بات کے بک دینے میں تامل نہیں۔

میں : گالی بھی پہلے اس نے دی۔

حضرت بی: تم نے کیوں گالی کھانے کی بات کی؟

میں : یہی تو میں عرض کرتا ہوں کہ میرا مطلق قصور نہ تھا۔

حضرت بی: کیا ایسے بیہودہ لڑکوں سے ملاقات رکھنا تمہارا قصور نہیں ہے؟

میں : جناب آپ کو معلوم نہیں، وہ لڑکا راہ چلتوں کے سر ہوتا ہے۔

حضرت بی: یک نہ شد دو شد۔ دروغ گویم بر روئے تو۔ میرے لڑکوں کے تو کوئی بھی سر نہیں ہوتا؟

میں : ان سے تو سرے سے جان پہچان ہی نہیں۔

حضرت بی: اور تم سے ہے۔

میں : کیوں کر کہوں کہ نہیں ہے۔

حضرت بی: ہے تو وہی تمہارا قصور ہے اور اسی کی یہ سزا ہے کہ تم نے بازار میں گالیاں گائیں۔

میں : لیکن میں نے بھی خوب بدلا لیا۔

حضرت بی: بس یہی تو تمہاری خرابی کے لچھن ہیں کہ اس کو تم بدلا سمجھتے ہو۔ اگر ایک شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تو اس کو لوگ بڑا کہیں گے؟

میں : ضرور کہیں گے۔

حضرت بی: اور جب تم اس کے ساتھ برائی کرو تو کیا زیادہ برے نہ کہلاؤ گے؟ گالی بکنا ایک زبوں بات ہے۔ اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔ سلیم، تو اپنے میں اور اس کنجڑے کے چھوکرے میں کچھ فرق سمجھتے ہو؟

یہ سن کر مجھ کو ندامت شروع ہوئی اور میں نے کہا کہ واقع میں اس وقت تو مجھ میں اور اس میں کچھ فرق نہ تھا۔

حضرت بی: لیکن وہ ایک بازاری آدمی کا بیٹا ہے اور تم ایک بڑے عزت دار کے لڑ کے ہو۔ تمہارے دادا کا شہر میں وہ شہر ہے کہ ان کے نام کی لوگ تعظیم کرتے ہیں۔ انہی کے پوتے تم ہو، جھوٹ بولنے پر دلیر، قسم کھانے میں بے باک، فحش بکنے میں بے دھڑک۔ سلیم، کوئی شخص دین اور دنیا دونوں میں اس وجہ سے عزت نہیں پا سکتا کہ اس کے باپ دادا عزت دار تھے۔ آدمی کی عزت اس کی عادت اور مزاج سے ہے۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ عادتیں جو تم نے سیکھی ہیں، عزت حاصل کرنے کی ہیں؟ ہر گز نہیں۔

یہ سب کر مجھ کو اس قدر شرمندگی ہوئی کہ میں رونے لگا۔ حضرت بی بھی آب دیدہ ہوئیں اور مجھ کو پاس بٹھا کر پیار کیا اور کہا کہ بیٹا، میں تمہارے ہی فائدے کے لئے کہتی ہوں۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ لیکن چند روز بعد تم کو ان عاد توں کا چھوڑنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ میں نے اسی وقت توبہ کی اور کہا کہ اگر اب سے آپ مجھ کو قسم کھاتے یا حش بکتے یا جھوٹ بولتے یا بازاری لڑکوں میں کھیلتے سنیں تو مجھ کو اپنے میں نہ آنے دیجیے گا۔

باپ: کیا بس اسی دن سے تم کو کھیلنے سے نفرت ہو گئی؟

بیٹا: جناب نہیں۔ مہینوں میں حضرت بی کے یہاں جاتا رہا اور ہر روز نصیحت کی دو چار باتیں وہ مجھ کو بتایا کرتی تھیں۔ ایک روز انہوں نے مجھ سے میرے وقت کا حساب پوچھا۔ میں نے سونا اور کھانا اور کھیلنا اور تھوڑی دیر لکھنا پڑھنا بہتیرے کام گنوائے۔ مگر انہوں نے سن کر ایک ایسی آہ کھینچی کہ آج تک اس کی چوٹ میں اپنے دل میں پاتا ہوں اور کہا: "سلیم، آٹھ پہر میں خدا کا ایک کام بھی نہیں۔ خدا نے تم کو آدمی بنایا، کیا ممکن نہیں تھا کہ وہ تم کو بلی یا کتا بنا دیتا؟ پھر آدمی بھی بنایا تو ایسے خاندان کا جو عزت دار اور خوش حال ہے۔ ہو سکتا تھا کہ تم مزدور یا لکڑہار کے گھر پیدا ہوتے اور ایسی چھوٹی سی عمر میں تم کو پیٹ پورا کرنے کے واسطے محنت کرنی پڑتی اور پھر بھی سوائے چنے کے اور کچھ نہ پاتے اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں۔ ایک لنگوٹی تم باندھے پھرتے۔ نہ پاؤں میں جوتی، نہ سر پر ٹوپی، نہ گلے میں انگرکھا۔ جہاں جاتے در در۔ جس کے پاس کھڑے ہوتے، پھٹ پھٹ۔ پھر صورت تم کو ایسی پاکیزہ دی کہ جو دیکھے پیار کرے۔ کیا تم کو کالا بھٹ، کانڑا، لنگڑا، کوڑھی بنا دینا اس کو مشکل تھا۔ جس خدا کے تم پر اتنے سلوک اور اتنے احسان ہیں، ستم ہے کہ دن رات میں ایک دفعہ بھی اس کے آگے سر نہ جھکاؤ، غضب ہے کہ ایک لمحہ بھی اس کو یاد نہ کرو۔ ” تب حضرت بی نے مجھ کو نماز سکھائی، اس کے معنی سمجھائے اور اسی طرح انہوں نے مجھ کو ہزار ہا نصیحتیں کیں کہ بر زبان یاد نہیں رہیں۔ مگر افسوس ہے کہ کئی مہینے سے ان کے گھر میرا جانا چھوٹ گیا۔ یہ کہہ کر سلیم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

باپ: کیوں، تم نے کس لیے ان کے یہاں جانا ترک کیا؟ کیا ان کے نواسوں سے لڑائی ہو گئی؟

بیٹا: جناب ان کے نواسے مجھ کو بھائیوں سے کہیں زیادہ عزیز ہیں۔ اگر میں ان سے لڑتا تو دنیا میں مجھ سے زیادہ نا لائق کوئی نہ تھا۔

باپ: پھر کیا حضرت بی تم سے نا خوش ہو گئیں؟

بیٹا: استغفراللہ۔ وہ تو خود درجے کی نیک ہیں کہ غصہ ان کو چھو ہی نہیں گیا۔

باپ: تو کیا تم آپ سے بیٹھ رہے؟

بیٹا: میں تو ہر روز وہاں جانے کے واسطے تڑپتا ہوں۔

باپ: تو کیا یہاں تم کو کسی نے منع کر دیا ہے؟

بیٹا: نہیں کسی نے منع بھی نہیں کیا۔

باپ: پھر کیاسبب ہوا؟

بیٹا: اگر آپ مجھ کو اس کا سبب بیان کرنے سے معاف رکھتے تو بہتر تھا۔

باپ: نہیں ضرور ہے کہ میں تمہارے نہ جانے کا سبب معلوم کروں۔

بیٹا: اس میں ایک شخص کی شکایت ہو گی اور حضرت بی نے مجھ کو غیبت اور چغلی کی ممانعت کی ہے۔

باپ: لیکن کیا وہاں نہ جانے سے تمہارا نقصان نہیں؟

بیٹا: اے جناب، نقصان سا نقصان! مگر میرے اختیار کی بات نہیں۔

باپ: تو میں تم کو اپنے منصب پدری کی رو سے حکم دیتا ہوں کہ تم سارا حال بوست کندہ بیان کرو۔

بیٹا: حضرت بی نے ایک مرتبہ مجھ کو یہ تاکید کہا تھا کہ تم اپنے سر کے بال منڈوا ڈالو۔ اگرچہ مجھ کو بال بہت عزیز تھے اور میں ان کی خدمت بھی بہت کرتا تھا لیکن چوں کہ مجھ کو یقین تھا کہ حضرت بی جو بات کہتی ہیں ضرور میری منفعت کے واسطے کہتی ہیں، میں نے کہا بہت خوب۔ حضرت بی نے اور تو کچھ سبب نہیں بیان کیا مگر اتنا کہا کہ بالوں کی بزرگ داشت میں تمہارا بہت سا وقت صرف ہوتا ہے اور وقت ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کو ایسی فضول با توں میں صرف کیا جائے اور تم کو بڑے بال رکھنے کی کچھ ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگلے دن جو حجام بڑے بھائی جان کا خط بنانے آیا، میں نے اس سے کہا کہ خلیفہ میرے بال بھی مونڈ دینا۔ بالوں کو مونڈنا سن کر بڑے بھائی جان اس قدر خفا ہوئے کہ میں عرض نہیں کر سکتا۔ مجھ کو جو چاہتے کہہ لیتے۔ حضرت بی اور ان کے نواسوں کو بھی بہت برا بھلا کہا۔ یہ کہہ کر سلیم کی آنکھوں میں پھر آنسو بھر آئے۔

باپ: تمہارے بڑے بھائی سے اور حضرت بی سے کیا واسطہ اور ان کو تمہارے افعال میں میرے ہوتے کیا دخل؟

بیٹا: جناب، نہیں معلوم ان کو کس طرح معلوم ہو گیا تھا کہ میں ان کے گھر آتا جاتا ہوں۔ دو ایک مرتبہ مجھ سے پہلے بھی کہا تھا کہ تو ان مرد و شو قلاؤذیوں کے ساتھ اکثر رہتا ہے، کیا تو بھی ملانا اور مسجد کا ٹکڑگدا بنے گا؟ اس دن بالوں پر کہنے لگے : دیکھا، آخر ان نابکاروں کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ آپ اچھے خاصے سر کو چھلا ہوا کسیرو بنانے چلے ہیں کہ دیکھتے ہی ہتھیلی کھجلائے، چانٹا مارنے کو جی چاہے۔ ایسے اکیلے سر منڈانے سے کیا ہوتا ہے۔ گھٹنوں تک کا کرتہ پہن، ٹخنوں تک کا پائجامہ بنا، پیج آیت کے واسطے دو چار سورتیں یاد کر اور چاہے کہ فقط انگی کو خون لگا کر شہیدوں میں داخل اور نراسر منڈا کر بریانی کی دعوتوں میں شامل ہو جاؤں، تو بچا ہاتھ دھو رکھو، گھسنا تو ملنے ہی کا نہیں۔

باپ: تم نے کچھ جواب نہیں دیا؟

بیٹا: جناب، اول تو بڑے بھائی کو جواب دینا خلاف شیوہ ادب تھا اور اگر دیتا تو مجھ کو جیتا بھی نہ چھوڑتے۔ جب تک میں سامنے سے ٹل نہیں گیا، انہوں نے زبان بند نہیں کی، اور ناحق حضرت بی کے نواسوں کی شان میں بری بری باتیں کہیں۔ غرض ڈر کے مارے پھر میں نے بال منڈوانے کا نام نہیں لیا اور تب ہی سے مجھ کو ایک حجاب سا پیدا ہوا کہ کئی بار مجھ سے کہہ چکی ہیں، اپنے دل میں کیا کہتی ہوں گی کہ کیسا خود سر لڑکا ہے۔ لیکن پھر انہوں نے کچھ تذکرہ نہیں کیا۔ معلوم نہیں بھول گئیں یا کہنے سے کچھ فائدہ نہ دیکھ کر چپ ہو رہیں۔ ابھی تک میں نے جانا نہیں چھوڑا، اگرچہ میرا جانا داخل بے غیرتی تھا۔ جب انہوں نے مجھ کو نماز سکھائی اور نماز کی تاکید کی تو میں نے ایک دن گھر میں نماز پڑھنی چاہی۔ بڑے بھائی جان اور ان کے یار دوست برابر ہنسائے جاتے تھی اور میں نہیں ہنستا تھا، تو جا نماز الٹ الٹ دیتے۔ سجدے میں جاتا تو اوپر بیٹھ بیٹھ جاتے تھے۔ ایسی حالت میں ممکن نہ تھا کہ میں نماز پڑھ سکوں اور حضرت بی سچ بولنے کا مجھ سے عہد لے ہی چکی تھیں۔ میں نے سوچا کہ جاؤں گا تو نماز کو پوچھیں گی، تو کیا کہوں گا۔ بالوں کی شرمندگی اور نماز کی ندامت، غرض اعمال کی شامت کہ میں نے جانا چھوڑ دیا۔ اب وہاں گئے مجھ کو تین ساڑھے تین مہینے ہو گئے۔ میری اس نا اہلی کو دیکھیے کہ تب ہی سے وہ میرے ہم جماعت بیمار پڑے ہیں، میں ان کی عیادت کو بھی نہیں جا سکا۔

باپ: لیکن تم نے اپنی مجبوری کا حال مجھ پر کیوں نہیں ظاہر کیا؟

بیٹا: اس خوف سے کہ غیبت ہو گی۔

باپ: تم نے اپنے بڑے بھائی کے رودر رو کہا ہوتا۔

بیٹا: اتنی مجال نہ مجھ میں کبھی تھی، نہ اب ہے۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ ہر وقت آپ کے پاس رہنے سے رہا۔ جب اکیلا پائیں گے، مجھ کو ٹھیک بنائیں گے۔

باپ: تم کو خوف ہی خوف تھا یا تم کو بڑے بھائی نے کبھی مارا بھی تھا۔

بیٹا: اس کی گنتی نہ میں بتا سکتا ہوں اور نہ بڑے بھائی جان بتا سکتے ہیں۔

باپ: کس بات پر؟

بیٹا: میں تو ہمیشہ ان کے مارنے کو ناحق، بے سبب، بے قصور، بے خطا ہی سمجھا۔

باپ: تم نے اپنی ماں سے بھی کبھی تذکرہ نہ کیا۔

بیٹا: جو وجہ آپ کی خدمت میں عرض کرنے کی مانع تھی، وہ ہی والدہ سے بھی کہنے کو روکتی تھی۔ دوسرے میں دیکھتا تھا کہ گھر میں نماز روزے کا مطلق چرچا نہیں۔ یہ بھی خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو، کہوں اور جس طرح بڑے بھائی جان نا خوش ہوتے ہیں اور لوگ بھی نا رضامند ہوں۔

باپ: تو یہ چند مہینے تمہارے نہایت ہی بری طرح گزرے۔

بیٹا: کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ ایک حضرت بی کی خدمت سے محروم رہنے کا صدمہ، دوسرے اپنی مجبوری کا رنج۔ میں نے لوگوں سے سنا تھا کہ سگ باش برادر خورد مباش سو مجھ کو ہر روز اس کی تصدیق ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر تو اس بات کا قلق تھا کہ میں اپنے گھر میں سب چھوٹے بڑوں کی عاد توں کو ناپسند کرتا ہوں اور اپنے جی میں سوچا کرتا ہوں کہ جس گھر میں رہتا ہوں اس سے مجھ کو وحشت ہوتی ہے تو میں کہاں جاؤں گا اور کیا کروں گا۔

باپ: لیکن اگر اب تم کو حضرت بی کے گھر جانا ملے؟

بیٹا: سبحان اللہ۔ اس سے بڑھ کر کوئی خوشی کی بات نہیں۔ لیکن جب تک کہ میں سر کے بال نہ منڈا لوں اور نماز نہ پڑھوں میں ان کو منہ نہیں دکھا سکتا۔

باپ: اور اگر یہ بھی ہو؟

بیٹا: تو پھر یہ بھی ہو کہ ہمارے گھر بھر کی عادتیں وہیں کی سی ہو جائیں۔

باپ: بھلا اگر یہ دونوں ہوں؟

بیٹا: تو پھر مجھ کو اور کچھ درکار نہیں۔

باپ: اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے اس تمام گھر پر ایک بربادی اور تباہی چھا رہی ہے اور سارا خاندان گناہ اور بے دینی کی آفت میں مبتلا ہے۔ آوے کا آوا خراب، کنبے کا کنبہ گمراہ۔ تعجب ہے کہ اب تک کوئی عذاب الٰہی ہم پر نازل نہیں ہوا۔ حیرت ہے کہ قہر خدا ہم پر کیوں نہیں ٹوٹ پڑا اور خدا کا الزام اور تم سب کا اولاھنا تمام تر مجھ پر ہے۔ میں تم لوگوں کے جسموں کی پرداخت و پرورش کرتا رہا لیکن تمہاری روحوں کو میں نے ہلاک اور تمہاری جانوں کو میں نے تلف کیا۔ کتنے دن میری گردن پر ہیں اور کتنے وبال میرے سر پر۔

بحیر تم کہ سر انجام من چہ خواہد بود

سلیم! آج تم خوش ہو جاؤ کہ تمہاری آرزو بر آئی اور تمہارا مطلب خدا نے پورا کیا۔ شوق سے اپنا سر منڈاؤ اور نماز پڑھو اور حضرت بی کی خدمت میں جاؤ۔ آج سے حضرت بی میری دینی ماں اور ان کے نواسے میرے دینی فرزند ہیں اور میں خود تمہارے ساتھ چلوں گا اور حضرت بی کا شکریہ ادا کروں گا کہ انہوں نے حسبۃًللہ تمہارے اور میرے دونوں کے ساتھ سلوک کیا۔ تمہارے ساتھ یہ کہ تم کو نیک صلاح دی اور میرے ساتھ یہ کہ جو کم میرے کرنے کا تھا وہ انہوں نے کیا۔ آج کے بعد انشاءاللہ تم اس گھر کو حضرت بی کے گھر کی طرح دیکھو گے۔ کوئی تفرقہ تم میں اور ان کے نواسوں میں باقی نہ رہے گا۔ سلیم! تمہاری آج کی گفتگو سن کر میرا جی بہت ہی خوش ہوا اور تم مجھ کو ساری اولاد میں سب سے زیادہ عزیز رہو گے۔ تم کو میں دوسروں کے لیے نمونہ اور مثال بناؤں گا اور ان کو جو تم سے بڑے ہیں، تمہاری تقلید پر مجبور کروں گا۔

ڈپٹی نذیر احمد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کا تیسرا ناول