گھڑیال نے آٹھ بجائے۔ گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ہلکی ہلکی موسیقی فضا میں پھیلنی شروع ہوئی۔ مدھم روشنیاں تیز ہوتی گئیں یہاں تک کہ دن کا دھوکا ہونے لگا۔ روشنیاں ایک دھماکے کے ساتھ دھیمی ہوگئیں۔ آخری گھنٹی کے ساتھ چنگ کی آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ مہتابی چھوٹی اور سرخ دبیز مخملی پردہ بڑی ناز و ادا کے ساتھ خراماں خراماں اٹھنا شروع ہوا۔ ہال تماشائیوں سے کھچاکھچ بھر گیا تھا۔ (Neon) نیون لائٹ میں اشتہار جگمگا رہا تھا۔
’’آج شب آٹھ بجے امپیریل تھیٹر کمپنی کا مشہور و معروف ڈرامہ ’’ابھیگیان شاکنتلم‘‘ خاص شان و اہتمام اور زرق برق سین سینری کے ساتھ پیش کیا جائے گا جس میں کمپنی کی مشہور اداکارہ حنا شکنتلا کا پارٹ کریں گی۔‘‘
پردے کے اٹھنے کے ساتھ ہی سوتر دھار نمودار ہوا۔ تماش بین کو جھک جھک کر سات بار سلام کیاپھر بولا۔ ’’سنیے جناب ڈرامہ کیا ہے؟‘‘ (مدھم آواز میں شادیانے بجنے لگے)
ڈراما کا فن ویدوں کی طرح خدائی دین ہے۔ تصور یہ بھی ہے کہ ڈرامہ نگاری کسی ایسے دور میں ممکن ہی نہیں جب انسانی زندگی آلام و اضطراب سے آگاہ نہ ہوئی ہو۔ عہد سیمیں میں اس فن کی داغ بیل پڑی۔ اسی دور میں جملہ دیوتا ابوالآبا (برہما) کے حضور میں گئے اور اس سے استدعا کی کہ ایک ایسا فن نمودار کریں جس سے سمع و بصر دونوں محظوظ ہوں۔ یہ پانچواں وید ہو مگر سابقہ ویدوں کے برخلاف اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دوسری تمام برادریوں کے لوگوں کو بھی حاصل ہو۔
برہما نے تاریخ اور موعظت کو ملا کر اس کی ترتیب کی اور رگ وید سے انشا، سام وید سے نغمہ، یجُر وید سے سوانگ اور اتھروید سے جذبات نگاری کے فنون کو ہم آمیز کیا۔ شِو نے تانڈو (رقص) اور پاروتی نے لطافت کا اضافہ کیا اور وشنو نے چاروں ڈرامائی اسالیب کا اختراع کیا اور تب وشوکرما کو حکم ملا کہ وہ نگار خانے کی تشکیل کرے اور آخر میں اسی موضوعی فکر و فن کو بھرت منی کے حوالے کیا گیا تاکہ وہ زمین پر آکر اسے معروضی رنگ و روپ میں پیش کرے۔ اس طرح بھرت منی خدائی فن ناٹیہ شاستر کا حامل ہوا۔
سوتر دھار نے اپنے لمبے رنگین عصا کو چاروں دِشاؤں میں گردش دے کر شکنتلا کے اسٹیج پر آنے کا اعلان کیا اور خود پردے میں غروب ہوگیا۔ شکنتلا کے بے پناہ حسن کو دیکھ کر راجا دشینت سمیت تمام تماش بیں رنگ و نور کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوگئے۔ روشنیوں نے ایسا رنگ بکھیرا کہ فضا نیلگوں سمندر میں تبدیل ہوگئی اور ہلکے گلابی لباس میں پری کی طرح پر تھرکتی دوشیزہ حنا نے ہوا میں اپنے رقص سے تماشائیوں کو مبہوت کر دیا ۔
گرین روم میں مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ ان میں وہ جوتے والا بھی تھا، جو پرسوں شام کو حنا کو ملا تھا اور آج اس کے ڈرامے کا اشتہار دیکھ کر آیا تھا ۔حنا کو جوتوں سے عشق تھا ۔طرح طرح کے جوتے اس کی ریک میں سجے تھے ۔اونچی ہیل والے ،نیچی ہیل والے ،آگے سے بند ،پیچھے سے کھلے ،بیلی ،سلیپر، سینڈل ،فل بوٹ، تسمے والے جوتے ،بغیر تسمے والے جوتے ،سفید، کالے ،قرمزی ،سنہرے ،روپہلے،لال ،ہرے ،نیلے ،پیلے، فالسئی، گلابی،فیروزی ،سرمئی رنگ برنگے ۔
حنا کسی بھی شخص کو دیکھتی تو پہلے اس کے جوتے دیکھتی ۔جوتے دیکھ کر اس کی شخصیت کا اندازہ لگاتی ۔حنا کا کہنا تھا کہ مضبوط جوتے پہنے ہوئے شخص مضبوط کردار کا ہوتا ہے ۔پھٹے گندے جوتے پہننے والا شخص لاپرواہ اور کمزور کردار کا ہوتا ہے ۔سلیپر گھسیٹتی ہوئی عورتوں کو بد دماغ کہتی تھی ۔ہائی ہیل والی نقشے باز اور کم ہیل والی خوش مزاج ،گم بوٹ پہننے والے زندگی میں تیز رفتاری پسند کرتے ہیں اور اکثر کامیاب رہتے ہیں ۔عید ،بقر عید پر ملنے والی عیدی کے پیسے یا موقع بہ موقع ملنے والے پیسے جوڑ کر حنا ہمیشہ جوتے ہی خریدتی تھی ۔امی لاکھ کہتیں کہ ڈھنگ کا سوٹ خرید لیا کرو، یا کچھ اور لے لو لیکن حنا کی ضد تھی جوتے ۔
حنا کانپور کے بازار میں :
اس شام بھی حنا جوتوں کے شو کیس پر جھکی بڑی حسرت و اشتیاق سے سنہری سینڈل کو نہار رہی تھی ۔اس نے کالج آتے جاتے ان خوب صورت نازک چمکتی سینڈلوں کو ہزار بار دیکھا تھا اور دل مسوس کر رہ گئی تھی ۔ان کی قیمت کا اندازہ اس مہنگی دکان کے باہر سے ہی ہو رہا تھا ۔اس کے مہینے بھر کے ٹیوشن کے پیسے بھی کم ہی تھے۔
“Yes, Please”دکان کے اندر سے ایک خوب صورت،گورے پروقار جوان نے باہر نکل کر اس سے پوچھا ۔
’’یہ سینڈل….‘‘وہ ہڑبڑا گئی ۔
’’کون سی ؟سنہری سنڈریلا سینڈل؟‘‘وہ مسکرایا۔
حنا کی نظر اس کے سیاہ چمک دار جوتوں پر پڑی۔یقیناً امیر ہوگا ۔اب بھئی جوتوں کی اتنی بڑی دکان ہے، وہ بھی اتنے شان دار بازار میں تو ……کردار درست ہوگا ۔مضبوط جوتے ہیں اس لیے …..
’’کیا ہوا محترمہ؟‘‘وہ پھر مسکرایا ۔
’’جی ….میرا مطلب….‘‘
’’اندر تشریف لے آئیے ….‘‘
’’نہیں ابھی میں پرس بھول آئی ہوں گھر پر….‘‘اس نے گھبراہٹ میں اپنا ننھا منّا سا خالی پرس مٹھی میں دبوچ لیا ۔
دکان کے مالک کی نظر اس کے شفّاف کنول جیسے معصوم کبوتر نما ہاتھوں پر پڑی اور ٹھہر گئی ۔’’اندر آکر اپنا سائز تو دیکھ لیجیے ؟ پیسوں کی کوئی بات نہیں، پھر آ جائیں گے ۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘اس کی صراحی دار گردن خودداری کے زعم میں تن گئی ۔
اس نے شو کیس کھلوا کر اس میں سے سینڈل نکلوا کر اس کے نازک قدموں کے قریب رکھ دی ۔گہری نیلی شلوار کے پاینچے میں سے سڈول ،تراشے ہوئے سنگ مر مر کے پاؤں باہر نکلے جن میں بیر بہوٹی کی طرح عقیقِ یمنی کے ناخن جگ مگا رہے تھے ۔سنڈریلا کی جوتی بالکل ٹھیک فٹ ہوئی ۔
’’قیمت ؟‘‘اس نے آواز دبا کر پوچھا ۔جل ترنگ بج اٹھا ۔۔۔
’’آپ کے لیے ہی یہ سینڈل بنی ہے محترمہ۔۔۔قیمت صرف پچاس روپے ‘‘
وہ حیرت زدہ تھی، ہرنی سی گھبرائی ہوئی۔پسینہ اس کے ماتھے پربصریٰ کے موتی بکھیر رہا تھا ۔
دل میں دعا مانگی: یا اللہ عزّت رکھ لے ۔پرس کھول کر جوڑ ا کل پچاس روپے ہی نکلے ۔
سنہری رتھ پر بیٹھ کر حنا اڑ چلی ۔’ابھی گیا ن شاکنتلم ‘کا پارٹ ہونے کے ایک ہفتہ بعد ہی پیغام آ گیا۔ ساتھ ہی ایک درجن قیمتی جوتے بھی ۔امّی نے کالج سے آتے ہی بلائیں لیں: ’’مبارک ہو حنا۔۔۔‘‘
’’کس بات کے لیے امّی؟ ‘‘حنا حیران۔نہ عید ،نہ بقر عید ،نہ سال گرہ ۔۔۔یہ اچانک ویران گھر میں مبارک باد کی کیا تک ہے ؟
’’میری مشکل آسان ہو گئی حنا ‘‘۔امّی کی آواز گیلی ہو گئی ۔
’’اللہ نے سن لی ،مولا نے مشکل آسان کر دی بٹیا۔۔۔‘‘
امّی ۔۔میری جان امّی، کیا ہوا؟وہ ڈر کر امّی سے لپٹ گئی۔امّی بری طرح سے کانپ رہی تھیں ۔
’’کاش آج تمھارے ابّو ہوتے تو۔۔۔۔
اس کی نظر شکستہ دالان میں ایک قطار میں رکھے ایک درجن جوتوں کے ڈبّوں پر پڑی ۔وہ ہنس پڑی ۔
’’یہ کیا امّی ،بازار ہی اٹھا لائیں ۔‘‘
’’نہیں حنا ،بازار گھر میں آ گیا ۔‘‘امّی نے اپنی مجبوری اور جوتا کمپنی کے مالک کے آئے رشتے کی بات بڑی خاموشی سے کہہ ڈالی ۔
حنا کا بز نس کلاس میں جانا کسی کو اچھا نہیں لگا ۔حنا ڈرامے کا چمکتا ہوا ستارہ تھی ۔شہرت و عزت اس کے قدموں میں پڑی تھی۔ لاکھوں چاہنے والے تھے،دوست تھے ،ایک بڑا گروپ تھا ان کا، دانشور (Intellectual) ساتھی تھے ،ہمدرد تھے ۔حنا خود پڑھی لکھی، ذہین اور نیک تھی لیکن ۔۔۔۔حنا کی آواز حلق میں گھٹ گئی اور نکاح کے چھواڑے بنٹ گئے ۔
امّی کا بوجھ ہلکا ہو گیا اور حنا کا بڑھ گیا ۔امّی خوش تھیں اور حنا خاموش ۔۔۔۔
پھولوں والی رات تھی ،ہر طرف پھول ہی پھول تھے ۔یکایک اسے ایک تیز بو کا احساس ہوا ۔کوئی بد بو دار چیز بری طرح مہک رہی تھی۔ تمام پھولوں کی خوشبو اس کے آگے ہلکی پڑ گئی تھی ۔کمرے میں کوئی چیز نہیں نظر آئی جس سے بو آ رہی ہو ۔بستر پر بیٹھتے ہی اس بو کی بھبھک نے زور پکڑا ۔
تب اسے یقین ہوا کہ بستر پر پڑے جسم سے ہی چمڑے کی تیز گندھ آ رہی ہے ۔طارق لمبا ،چوڑا ،خوب صور ت نوجوان ،کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہو چکا تھا ۔
پہلے وہ بات سمجھ نہیں پائی لیکن اب سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔اس کے دوستوں نے جو تمام باتیں بتائی تھیں ،وہ بے بنیاد نکلیں ۔اس کی بے پناہ خوب صورتی بے کار ثابت ہوئی ۔بستر پر صرف کانٹے تھے اور تنہا وہ تھی ۔
وہ زندگی کا سب سے بڑا جوا ہار گئی تھی ۔
اس کا کمسٹری لیب میں رکھا فلاسک اچانک ٹوٹ گیا تھا ۔
تیز گرم ابلتا تیزاب اس کو زخمی کر چکا تھا۔ روح تک میں چھالے ابھر آئے تھے ۔
تمام رات وہ خرّاٹے مار کر سوتا رہا ۔
وہ پھولوں کی آگ میں جھلستی رہی ۔
دن بھر وہ طرح طرح کی دوائیں کھاتا ،ہر پیتھی کو آزماتا ،ہومیو پیتھی ،ایلو پیتھی ،نیچرا پیتھی ،یونانی ،آیور ویدک ،ریکی ،ایکیو پریشر لیکن بے کار ،بے مقصد ۔اس کے جسم سے چمڑے کی گندھ ہر لمحہ آتی ۔
حنا کے کمرے میں رات بارہ بجے کے بعد ہی آتا ۔دیر رات تک اپنی امّاں کے پہلو میں بیٹھ کر باتیں بناتا۔ اس کو پاکیزگی ،صبر، نیک چلنی کے موضوع پر بھاشن دیتا اور ٹی ۔وی پربلیو فلمیں دیکھتا رہتا ۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا تھا کہ اس کی ارج (Urge)ختم ہو چکی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں ۔
طارق کا کہنا تھا کہ وہ حنا کے حسن کے آگے بے بس ہو جاتا ہے ۔ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔اس کے شعلوں سے ڈر جاتا ہے ۔ہاتھ لگاتے ڈرتا ہے کہ کہیں میلی نہ ہو جائے ۔
طارق ہر جمعرات اپنی نظر اترواتا ،جھڑواتا ۔تعویز ،گنڈوں کو پہنتا ۔مولوی بلا کر پانی پھنکواتا ،گھر کے چاروں کونوں پر ڈلواتا ،خود اس پانی سے نہاتا ۔
نظر اتار کر پھٹ کری جب آگ میں ڈالی جاتی تو پھٹکری پگھل کر طرح طرح کے روپ میں ڈھل جاتی۔ طارق ان روپوں میں کبھی اپنے پڑوسی کی شکل تلاش لیتا ،تو کبھی کسی جوتا بازار کے دکان دار کو اور کبھی رشتے دار عورت کو۔ پھر دونوں ماں بیٹے مل کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ۔حنا کو ان چیزوں پر یقین نہیں تھا ۔
وہ ہر وقت کھانے کا شوقین تھا۔ شاید وہ اپنی کمی کو اس طرح پورا کرتا تھا ۔صبح سے لے کر شام تک اس کو کھانے کی ہی فکر رہتی ۔ناشتے میں کیا پکا ہے ؟بالائی اور کلچے نہیں تو بازار سے منگا ؤ ۔دوپہر کا کھانا کیا ہے ؟ گوشت کی کتنی قسمیں ہیں ؟ میٹھے میں کیا پکا ہے؟شام کی چائے کے ساتھ پکوان ،رات کا کھانا ….طارق نے کمپیوٹر میں ہنی مون فائل کھول رکھی تھی ۔اس کو پتہ ہی نہیں تھاکیوں کہ وہ لوگ تو ہنی مون کے نام پر دو دن کے لیے کانپور سے لکھنؤ گئے تھے۔ طارق کی خالہ زاد بہن آئی تھی۔ اس نے کمپیوٹر میں کر فائل دیکھی: ’’آپ لوگ منالی گئے تھے ہنی مون پر؟‘‘
حنا ہکّا بکّا۔
گم بوٹ میں نوٹ بھرے رہتے ۔جتنا چاہیے ،خر چ کرو …..
حنا کو لگتا ،جوتے پیروں سے چل کر دماغ تک آ گئے ہیں اور تڑا تڑ پڑ رہے ہیں ۔
روپے کی ریل پیل ۔بڑھیا کھانا ۔رہنے کو حویلی ….زندہ رہنے کو اور کیا چاہیے … واقعی کیا چاہیے ؟
حنا کو اپنی سنکری گلی میں بسا شکستہ ،بد رنگ، چھوٹا سا گھر بے حد یاد آتا جس کے کچے آنگن میں جوہی کی بیل تھی اور رات کی رانی مہکتی تھی …..
اس کی سسرال کا آبائی مکان اتر پردیش کے ایک پچھڑے دیہات میں تھا ۔
بااقتدار سادات گھرانا :
محرم کرنے وہ لوگ گاؤں پہنچے ۔مجلس ماتم کا زور ….شور …تعزیہ ،علم، زری ،گہوارہ ، تابوت ،جھاڑ ، فانوس….فرشِ عزا….سفید براق چاندنی…..مومی شمعیں بجھی ہوئی …..لوبان کا دھواں …..اگر کی مہک….. دل گیلا،گیلا…..شب بیداری …..پر سوز مدھم آواز میں مرثیہ پڑھا جا رہا تھا …..
’’اے رات نہ ڈھلنا کہ اجڑ جائے گی زینب ….‘‘
مرثیے کی آواز دل میں اترتی جا رہی تھی ….
’’اے لڑکی….. اے بٹیا ….سن …یہ دریا والی مسجد کا علم ہے ۔معجزے کا علم ….منت کا دھاگا باندھو تو صاحبِ اولا د ہوگی ۔گود ہری بھری رہے گی …..مانگ لو کہ مولا لڑکا ہو گا تو ’قاصدِ صغرا ‘بناؤں گی ۔چھم ….چھم….چھم پیک ناچنے لگے…. مور پنکھی بالوں میں لگائے ….رنگ برنگی پگڑی باندھے ….نیچی دھوتی ننگے پاؤں ….پیروں میں گھنگھرو باندھے امام حسین کے نام پرتین دن تین رات ننگے پیر سفر……بنا دانا پانی کے ہر مذہب کے لوگ منّت مانگ کر پوری ہونے پر پیک بنتے یا علی …یا حسین کے بلند نعرے لگاتے…
آگ کا ماتم کراؤ گی….
’’مانگ لو نا؟‘‘
’’یہ کیا ٹھس بیٹھی ہو دلہن؟‘‘
دیہاتی بنجارن تعزیے کے آگے دوہے گا کر رو رہی ہے …..صغرا بیوی مکھ پر انچرا ڈارے بین سناوت ہے …..ہائے حسینا بابا مورے تم بن چین نہ آوت ہے ……رین کٹت ہے رہ رہ موری نیند نہ ہم کا آوت ہے ……جائے بس ہو کونے دسوا گھر ہو کوہوں بھلاوت ہے ؟
امام باڑے کا آنگن کالے اور سفیدعماموں سے بھر گیا ۔فاتحہ ہو گیا ۔ذوالجناح زنان خانے میں لایا گیا۔ عقیدت مند عورتیں ملیدے کا تھال لے کر دوڑیں ….ذوالجناح کو دیسی گھی سے بنی پوریوں او رمیوں کا ملیدہ ٹھساتی رہیں ….وہ بے چین ہوتا رہا … بھاری کپڑوں وزیوروں سے سجا ذوالجناح پست پڑ گیا۔ اس کی پچھلی ٹانگیں بوجھ اور تھکان سے کانپنے لگیں ۔اس کے منہ سے سفید سفید جھاگ نکلنے لگا۔جھاگ کے ساتھ گرے ہوئے ملیدے کے ٹکڑے کچی مٹی دھول میں سن گئے ۔ زمین سے اٹھا کرزبردستی یہ ٹکڑے اس کے منہ میں ٹھونس دیے گئے ۔
یکایک اسے ایک تیز اُبکائی آئی اور صحن کے کچے فرش پر اندر کا سب باہر آ گیا ۔ایک زور دار نعر�ۂ صلوات بلند ہوا اور چپکے سے کسی نے حنا کو مبارک باد دے ڈالی ۔’’مبارک باشند‘‘پاس کھڑی خلیہ ساس نے اسے گھڑکا ’’ایّامِ عزا میں مبارک باد نہیں دیتے ۔کافرہ ہو گئی ہو کیا بی بی ؟‘‘
خبر جنگل کی آ گ کی طرح دیہات میں پھیل گئی ….
’’کمینی …دھوکے باز ،فاحشہ ،منحوس ،مکّار،مشّاطہ،حرّافہ…بدچلن…بدذات…دغا باز …بدکار…‘‘
رات میں دیسی اتر پردیس کے مرد نے اپنی مردانگی دکھائی ۔چمڑے کی مضبوط بیلٹ اتار کر اس کے نرم و نازک سنگ مر مری جسم پر ہزاروں نشان ڈال دیے ۔
باہر ماتمی انجمنیں زنجیروں کا ماتم لہو لہان ہوکر کر رہی تھیں ۔ان کے شور میں بیلٹ کی آواز ڈوب گئی ۔پھر یہ سلسلۂ روز وشب ہی ہو گیا ۔ وہ اسے طرح طرح سے ایذا پہنچاتا ۔روز ہی دھوبی پاٹ لگاتا ۔اس کی پیٹھ نیلی پڑ چکی تھی۔ اس ڈر سے کہ کوئی جان نہ لے وہ گردن تک اونچے اور کمر سے کافی نیچے ناف تک کپڑے سلوانے لگی ۔
ہر رات مغلظات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ہر رات اس کی روح کی Tanningہوتی۔ Nailing ہوتی….طارق کی چمڑا فیکٹری میں وہ کھال سے چمڑا بننے کا پورا کھیل دیکھ چکی تھی ۔کھال کو پہلے نمک کے گھول میں ڈالا جاتا ۔اس کے بال اور کھال کی اوپری سطح اتار کر پھر اسے تیزاب میں ڈالا جاتا ۔اس کی Tanning کی جاتی ۔اسے سکھا کر پھر اس کی Nailingکی جاتی۔ کھال کو کھینچ کھینچ کر کیلوں سے جڑا جاتا ۔صلیب پر ٹانگا جاتا ۔پھر جس رنگ میں چاہیں چمڑے کو رنگ لیتے ہیں ۔یہی سب اس کے ساتھ بھی تو ہو رہا تھا …..لیکن اس پر کوئی رنگ چڑھ ہی نہیں رہا تھا۔
بعض اوقات وہ حنا سے کوئی مختصر سا سوال کرتا اور اس کی آواز انتہائی سخت، عجب اور کچھ وحشیانہ سی ہوتی، جس سے اس کا جسم لرز اٹھتا ۔وہ تشدّد کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیتا ۔اس کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اس میں اپنے گندے ناخون گڑا دیتا ۔کبھی سر دروازے یا دیوار میں ٹکرا دیتا ۔لہو لہان جسم ،نیل پڑا جسم …..اب مار کھانا اس کی عادت بن چکی تھی ۔روز روز ڈسپنسری جانے کی زحمت سے بچنے کے لیے اور ڈاکٹر کے طرح طرح کے سوالات سے بھی بچنے کے لیے اس نے خود ہی اسپرٹ کی بڑی شیشی اور روئی کا بڑا رول خرید لیا ۔اب وہ اپنی مرہم پٹّی خود ہی کرنے لگی۔لیکن اسے اب اپنی جسمانی کمزوری کا احساس بڑی شدّت سے ہونے لگا تھا ۔جسمانی اذیت….روحانی اذیت….
اسے یقین تھا کہ اللہ اب اور دکھ نہیں دے گا لیکن اللہ اپنے نیک بندوں کا خوب امتحان لیتا ہے اور وہ شادی شدہ زندگی کے سبھی امتحان دے چکی تھی ۔لیکن رزلٹ زیرو ہی رہا ۔بلکہ اب جس رات وہ نہ مارتا وہ جاگتی رہتی۔ اس کو خلش سی ہوتی ۔اس کو تشدّد میں لطف آنے لگا ۔ایک عجیب سا لطف ……شروع میں وہ روتی تھی پھوٹ پھوٹ کر …اپنی قسمت کو کوستی… اپنے کو بچاتی تھی …پھر وہ مار کھانے پر ہنسنے لگی….اس کو لطف آنے لگا ……وہ مارتے مارتے تھک جاتا …وہ نہ تھکتی۔
’’بنجر مرد مار ہی تو سکتا ہے ….‘‘وہ ہنس پڑی، وہ مارتے مارتے ٹوٹ گیا ۔
حنا کو پتا چل چکا تھا کہ مذہبی انتہا پسند منطقی دلائل اور مباحث سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے تشدّد میں پناہ حا صل کرتے ہیں ۔شادی کا ڈھول گلے میں پڑا تھا ۔اس کو جب چاہے بجا لو …. بھنا لو…
اصل میں کہیں کچھ بھی نہیں تھا ….فلاپ شو ….فلاپ شو …نہ راحت ….نہ وصال….سب جھوٹ…کوئی تحفّظ نہیں تھا ….کوئی مکان نہیں تھا ……کوئی جذباتی لگاؤ نہیں تھا …..
صرف ڈیوٹی تھی …ڈیوٹی تھی….فرض تھا، وہی نبھانا تھا…وہی نبھا رہی تھی …
بھرا پُرا گھر تھا …ذمّہ داریاں تھیں …جو اس پر مسلّط تھیں …بس محبّت نہیں تھی، باقی سب کچھ تھا۔ پورا خاندان انتہائی قدامت پسند تھالیکن ذہنی طور پر مفلس ۔جاہلانا رسومات کی پابندی تھی ۔عجب حالت تھی اس کی۔ گھر میں نہ تو کوئی کتاب تھی نہ ہی میگزین لائی جاتی تھی ۔جو کتابیں وہ اپنے ساتھ لائی ، سب غائب کر دی گئی تھیں۔وہ کچھ رسالے خرید لائی…’’ہمارے یہاں شریف زادیاں اس طرح کی کتابیں نہیں پڑھا کرتیں ۔‘‘اس کے ہاتھ سے رسالہ چھین لیا گیا تھا۔ یہ اکیسویں صدی کا انت تھا ….اور ایسی جہالت کا کوئی علاج نہیں تھا ۔
اس کی سسرال میں عورتیں سوئیٹر بنتی تھیں یا گل بوٹے چادروں پر کاڑھتیں کروشیا سے میز پوش بناتیں،کھانا پکاتی ۔وہ آسمان پر بادلوں کے رنگ دیکھتی رہتیں…
’’بہو کو چھت سے اتارو، اس پر کسی کا سایہ ہے ۔‘‘ساس ماں فرماتیں ۔’’تبھی توبولتی نہیں چپ رہتی ہے۔‘‘ بڑی نند نے پاندان کھول کر پان میں چونا لگایا ۔
حنا کے بال ریشم کی طرح چکنے اورریشمی تھے ۔کسی بندھن میں نہ بندھتے ۔اس کی روح کی طرح آزاد۔ تمام ربر بینڈ سرک جاتے،جوڑے کے ہیئر پن گر جاتے اور بال کھل جاتے ۔طارق زمین اور بستر پر گرے ہوئے ہیئر پن اٹھا کر اکثر دے دیتے ۔
ایک دو بار سب کے بہت کہنے پر فلم دکھانے بھی لے گئے حالاں کہ لے جانا نہیں چاہتے تھے ۔اس دن حنا کی ساس نے حنا کو مہندی لگوائی تھی ۔اس سے دماغ ٹھنڈا رہتا ہے ۔مہندی رچ جائے اس لیے ہاتھ میں پانی نہیں لگانا تھا۔ پیاس لگنے پر طارق نے پکچر ہال کے باہر لگے نل سے ہاتھ کا چلّو بنا کراس کو پانی پلایا ۔حنا نے سوچا، چلو یہی سہی۔ کم از کم کچھ تو ہے زندگی میں ….کوئی یادگار لمحہ … سکون کا ایک پل…..بس…..لیکن رات میں جب وہ روز پیٹھ موڑ کر لیٹ جاتا تو اس کا خون کھولنے لگتا۔وہ رات میں ۲۔۲ بجے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے جاڑوں میں نہا لیتی ۔ساس کہتیں ’’دیر رات میں حمام سے نہانے کی آوازیں آ رہی تھی ۔بہو غوطۂ طہارت کی پابند ہے ۔اللہ کا شکر ہے ۔‘‘
اکثر طارق اپنا منہ شرم سے اس کے پلّو میں چھپا لیتا ۔عرقِ ندامت میں شرابو ر ہو جاتا ۔ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو جاتے ۔بڑی بڑی آ نکھوں میں آنسو بھر کر کہتا مجھے چھوڑ کر مت جانا ،مری رس بھری …وہ اس کے ستار کے تار کس دیتا۔ جب ستار تیار ہو جاتا کہ اس پر راگ چھیڑا جائے تو وہ باتھ روم میں گھس جاتا اور دروازہ اندر سے بند کر لیتا ۔لاکھ کھٹکھٹانے پر بھی نہ نکلتا ۔گھنٹوں بعد نکلتا پھر راکھ میں چنگاری تلاش کرتا ۔وہ اپنی ہی آگ کے شعلوں میں نہا جاتی۔ جل جاتی، بال نوچ ڈالتی،چوڑیاں توڑ کر اپنے ہونٹ چبا جاتی ۔ایک عجب سا بخار ۔بدن کو توڑ دینے والا ۔تمام نسوں اور رگوں میں گرم گرم سیّال دوڑتا ۔آ نکھوں کو کھولنا مشکل …..گرم گرم سلاخیں سی چبھتیں، وجود سے لپٹیں نکلتیں ۔
تکلیف سے ایک ایک ریشہ ٹوٹتا پھوٹتا ….درد …عجیب سا لطف ….پھواریں اور بوچھاریں…..گرم اور ٹھنڈی، پوری ہولیکا جلتی …ہو لیکا دہن …چٹکتی چنگاریاں …انگارے…شعلے …راکھ… دیوالی کے پٹاکھے پھٹتے…لہسن دیواروں پر مارے جاتے …پھل جھڑیاں …چکر گھنّیاں …سب ناچ رہے…راکٹ ہوا میں چھوڑے جاتے…وہ کبھی آسمان پر ہوتی کبھی زمین پر …بجلی کے تار…تیز کرنٹ کی جھنجھناہٹ…دردکی تیز لہر …اور پھر سب کچھ شانت …وہ گوشت کا سفید لوندا بن کر بستر پر پڑا رہتا ۔حنا کا جی چاہتا ایک زور دار کِک مار کر اس کو اپنے بیڈ روم سے باہر کر دے۔ تھوک دے اس پر ۔مارے نفرت کے اسے قے آ نے لگتی ۔خارش زدہ کتّا…کمزور… لجلجا …بدصورت مرد …
سینڈل پہنتے وقت اچانک اسے اُسی تیز ناقابلِ بیان بو کا احساس ہوا ۔اسے اپنی ہی سینڈل سے کراہیت آنے لگی ۔جھٹک کر اس نے سینڈل دور پھینک دیے ۔ننگے پاؤں …فرش پر قدم رکھا…پھر کمرے کا دروازہ کھول کر لان میں اتر گئی۔ نرم شبنم میں ڈوبی گھاس میں پاؤں جو پڑے تو لگا روح تک معطر ہو گئی …کمرے میں آ کر وہ دیر تک ننگے پاؤں ہی گھومتی رہی ۔
امی آ گئیں۔
’’کیسی ہو بیٹی؟‘‘
’’ٹھیک ہوں ۔‘‘
’’یا اللہ …یہ آج ننگے پانو کیوں گھوم رہی ہو ؟‘‘
’’چپلوں سے بو آ رہی ہے امی ‘‘اس نے لا پر واہی سے کہا ۔امی تشویش سے اسے دیکھتی رہیں ۔
’’امی کیا لمبے بال منحوس ہوتے ہیں ؟‘‘اس نے اپنی پشت پر پھیلے سیاہ بالوں سے پانی جھٹکتے ہوئے پوچھا ۔
’’حنا…تم یہ کیسی باتیں کرنے لگی ہو…تم تو قنوطی ہوتی جا رہی ہو ….شادی کے بعد تو لڑکیاں گلاب سی کھل جاتی ہیں …..تم مرجھا رہی ہو،کیوں؟ …..چمپئی رنگ، مٹی کے رنگ سی ہو رہی ہے …‘‘امّی نے بد حواس ہو کر اسے گلے لگا لیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئیں …
ستارہ شناس اسے دیکھ کر مسکرادیا :’’ذہین لڑکیوں کی خانہ آبادی مشکل سے ہوتی ہے …‘‘
’’لیکن کیوں ؟‘‘امی نے برقعے کا کنارہ منہ میں دبا کر سسکی لی ۔
’’زوال کا پرندہ مسلسل اور مستقل اس کے سر کا طواف کر رہا ہے …زائچہ میں قمر و مشتری دونوں مائل بہ زوال ہیں ۔یہ اس کے تاریک دن ہیں ۔روشن دن شروع ہونے میں…‘‘اس پر غنودگی طاری ہو گئی ۔
لوبان کی خوشبو ستارہ شناس کی آواز میں گھل مل گئی ۔یونان کی شہزادی…فصیل شب… طوفانِ نوح…کشتی رواں دواں ہے …زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں …کالی آ ندھی…سیاہ شب…تاریک راستے …
حقّا…حقّا…حقّا…ستارہ شناس کی آ نکھیں آسمان کی طرف اٹھ گئیں ۔گہرے نیلے آ سمان پرایک سیاہ ننھا سا پرندہ کافی بلندی پر پرواز کر رہا تھا ۔وہ ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔اچانک پرند ہ گھبرا کر اپناراستہ بدل کر تیزی سے اڑا… ایک بڑی چیل نے اسے دھر دبوچا ۔زخمی پرندہ ستارہ شناس کے قدموں میں آ کر گرااور تڑپنے لگا ۔ستارہ شناس نے اپنا سیاہ لبادہ سنبھالااور جھک کر زخمی پرندے کو اٹھانے لگا …لبادے کی ایک جیب سے اس نے ہر سنگھار کے تازہ مہکتے ہوئے نارنگی پھول نکال کر حنا کی مٹھی میں بند کر دیے…
مکان کی کال بیل دیر تک بجتی رہی، پھر شاید کسی نے دروازہ کھولا …
’’شیلی تم ؟‘‘شیلی اس کے گلے لگ چکی تھی ۔ مارے خوف اور شرمندگی سے حنا نے آ نکھیں موند لیں ۔
اس کی پشت سے ساڑی کا پلّو سرک کر نیچے گر چکا تھا ۔پوری پیٹھ نیلی تھی ۔شیلی ساکت کھڑی رہی ،پتھر کے بت کی طرح ۔حنا سوال سے ڈرتی تھی ۔اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔’’حنا، میں حقوقِ نسواں کے لیے گذشتہ پندرہ برسوں سے کام کررہی ہوں ۔خواتین کے مسائل پرویکلی کالم لکھتی رہی ہوں جو بے حد مفید سمجھے جاتے ہیں اور وہ مقبول بھی ہوئے ہیں ۔میں اپنے بارے میں یقیناًمبالغے سے کام نہیں لے رہی ہوں ۔تم سندھی ادب کے کسی بھی قاری سے تصدیق کر سکتی ہو …‘‘
’’میں جانتی ہوں ۔‘‘
’’جانتی ہو…لیکن مانتی نہیں …مظالم پر خاموش رہنا بھی…‘‘
’’میں اپنی تمام کشتیاں جلا چکی ہوں …‘‘
’’میں بھی پھولوں کی سیج پر نہیں بیٹھی ہوں۔ آگ سے مقابلہ کررہی ہوں۔‘‘سولہ سال کی عمر میں جب انٹر کا رزلٹ لے کر گھر آئی کہ’’ ابّا دیکھیے، میں کلاس میں اوّل آئی ہوں ۔‘‘ تو مجھ پر پردہ واجب ہو چکا تھا ،اسی شام میرا نکاح ایک ۴۵ ؍سال کے بوڑھے ہوس پرست رئیس سے کر دیا گیا تھاکیوں کہ میری پانچ اور چھوٹی بہنیں بیاہی جانی باقی تھیں ۔بیس سال کی عمر میں میں تین معصوم بچیوں کی ماں بن چکی تھی اور اکیسواں سال لگنے سے پہلے ہی میرے شوہر نے مجھے لڑکیاں پیدا کرنے کے جرم میں طلاق نامہ پکڑا دیا ۔میری ہی کم سن بھتیجی سے اس کا نکاح ہو گیا ….میں نے عدالت کا دروازہ چھوا ۔مجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں … میرے بچّے چھین لیے گئے پھر بھی میں تنہا لڑتی رہی۔‘‘
’’لو شیلی شربت پی لو….اب تم تھک گئی ہو…‘‘
’’نہیں میں تھکی نہیں ہو ں…. جنگ ابھی جاری ہے …‘‘
’’شیلی تم نے کوئی ڈرامہ دیکھا ادھر؟‘‘
’’ہاں! بھاس کا ’چارو دَت ‘دیکھا۔ اس میں کیوٹ ،ودوشک اور شکار تینوں ہیں اور راجا دشینت نے بھی تم کو یاد کیا ہے ۔‘‘اس نے شربت کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگالیا ۔
’’کون راجا دشینت ؟‘‘
’’لو… یہ بھی بھول گئیں ؟‘‘
’’اوں…‘‘
’’ارے روہت کمار…‘‘
روہت کمار کی سیاہ گھنی کالی پلکیں اوپر اٹھیں ۔وہ طنزیہ مسکرا رہا تھا …
ساس اس کو دیکھتے ہی جھلا گئیں :’’دلہن تم نے پھر سارے زیور اتار دیے ….جھاڑ جھنکار بن گئیں ۔اللہ نے اتنا دیا ہے …اوڑھا پہنا کیا کرو…یہ بد شگونی نہ کیا کرو …میرا لال سلامت رہے …تمھارا سہاگ بنا رہے …یہ فیشن نے دماغ خراب کر دیا ہے تمھارا …‘‘۔ایک فریم میں سے تصویر نکل کر اچانک دوسری جڑ گئی ….
’’پھولوں کو زیور پہنے دیکھا ہے کبھی ؟‘‘روہت کا زور دار قہقہہ فضا میں چھا گیا۔
ریہر سل کرتے ہوئے تمام فن کار پلٹ کر اسے دیکھنے لگے ۔وہ سین کے لیے پھولوں کے زیوروں سے سجائی جا رہی تھی ۔شرما گئی تھی وہ ۔گرجتا چمکتا بھادو ں برس رہا تھا لگا تار …سلسلے وار بارش…
’’آج فائنل ریہر سل ہے، کیسے جاؤں گی ؟‘‘وہ بار بار کھڑکی کا پردہ اٹھا کر باہر دیکھتی ۔تیز بارش سے پانی گھر کے احاطے میں بھر گیا تھا ۔
سونے احاطے میں موٹر سائیکل کا شور گونجا۔بھیگا ہوا روہت گنگناتے ہوئے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹا رہا تھا ،لائٹ جا چکی تھی۔
’’کالی گھوڑی دوارے کھڑی ……….‘‘
’’ارے واہ ،روہت بیٹا اندر آؤ‘‘امّی نے بھیگے ہوئے روہت کو اندر بلا لیا ۔
’’آداب امی ‘‘
’’جیتے رہو…اتنی بارش میں کہاں گھوم رہے ہو؟‘‘
’’امّی جی، میں تو خادم ہوں …ڈائیریکٹر صاحب کا حکم نامہ ابھی ابھی ملا ہے کہ نیلم پری کو تختِ طاؤس پر بیٹھا کر فوراً لے آؤ تو جناب ہم حاضر ہو گئے …‘‘
اس کو دیکھتے ہی ڈائیریکٹر عثمان عابد نے حیرت کا اظہار کیا ۔
’’تم اتنی آندھی بارش میں کیسے آئیں ۔میں تو ریہر سل کینسل کرنے جا رہا تھا …؟‘‘
روہت نے اس کی طرف دیکھ کر لبوں پر شرارت سے انگلی رکھ لی ۔
کسی شخص کو نہ بھی یاد کرنا چاہو پھر بھی وہ بے طرح کیوں یاد آ جاتا ہے ؟
وہ چپ چاپ اوبرائے کانٹی نینٹل کی آخری میز پر طارق کے ساتھ بیٹھی فش سیزلر کی طرف دیکھتی رہی ۔
اس نے اپنا سر میز پر اتنا جھکا لیا تھا کہ طارق اس کی طرف دیکھ نہ سکے اور اپنی پلیٹ پر جھک گئی ۔اس نے شمع کا رخ طارق کی طرف کر دیا اور چینی کے گلدان میں سجے گلدستے کو اپنی طرف گھسیٹ لیا تاکہ طارق اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے اور اس کی آنکھ سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر پلیٹ میں گرنے لگے …
آج اس کی شادی دوسری سال گرہ تھی اور طارق اپنے دوستوں کے حکم کی وجہ سے اس کوبڑے ہوٹل میں ڈنر کرانے لائے تھے ۔
دھول ،بادلوں اور دھند سے گزرتا ہوا اس کا ذہن ایک دم کالج کی دیوار سے نیچے کود گیا اور چرمرا کھانے لگا ۔
سفید سفید لیّا ،سرخ مونگ پھلی کے دانے ،بیسن کے پیلے سیو …پیاز کے کٹے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، چٹ پٹا مسالا ،نمک ،ہری دھنیا اور کتری ہوئی ہری مرچ کی ترشی…تیزی …آنسوؤں کے ساتھ گھل مل گئے ۔
ڈرامے کے ریہرسل کے ٹی بریک میں اکثر روہت چُرمُرا لے آتا ۔اس فائیو اسٹار ہوٹل کی ڈش سے اچھا مزہ چُرمُرے کا تھا ۔یہ ذائقہ اس چُر مُرے کا نہیں بلکہ اس لمحے کا تھا جو اس کی زندگی سے جا چکا تھا ۔
’’تم نے تو کبھی فائیو اسٹار ہوٹل دیکھا نہیں ہو گا ؟‘‘طارق کے لہجے میں حقارت تھی ۔
اس نے خاموشی سے سر جھکا کر چاندی کے بول میں ہلکے گرم پانی میں پڑے لیموں کے ٹکڑے کو ہاتھ میں تھا م لیا ۔
’’ہیلو…‘‘
’’ہیلو…حنا‘‘
’’جی سر …سر آپ نے میری آواز کیسے پہچان لی؟‘‘
’’تمھاری آواز بھی کوئی بھول سکتا ہے ۔تم ہمیں بھول گئیں …اپنے ساتھیوں کو بھول گئیں ۔
…لیکن ہم تمھاری جادوئی …کانوں میں شہد گھولنے والی آواز نہ بھول سکے ۔‘‘
’’سر… میں نہ آپ کو بھول سکی نہ اپنے ساتھیوں کو …بس حالات…‘‘
’’میں جانتا ہوں …‘‘
’’آپ جانتے ہیں …؟کیا سر؟‘‘
’’یہی کہ تم کو اسٹیج بار،بار پکار رہا ہے …تالیاں تمھارا انتظار کر رہی ہیں ،ناظرین سانس روکے بیٹھے ہیں …‘‘
’’سر اب تو میری جگہ کوئی دوسرا…‘‘
’’حنا تم بھول گئی، کسی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا ۔سب کی اپنی جگہ ہوتی ہے ۔‘‘
’’تو کیا سر میں اب بھی آ سکتی ہوں ؟‘‘
اس کی آواز کانپ رہی تھی ۔
’’حنا رِگ وید کا یہ شلوک سنو‘‘
مل کر چلو ،مل جل کر کام کرو۔
تمھارے یتن ایک سمان ہوں ۔
تمھارے ہِر دئے ایک مت ہوں۔
تمھارے من سینیکت(مشترک) ہوں۔
جس سے ہم سب سکھی ہو سکیں ۔
حنا ہم سب اگلے مہینے سنسکرت ناٹیکا ’مِرچھ کٹی کَم ‘‘فن لینڈ لے جا رہے ہیں ۔
’’اچھا۔‘‘
اس نے اپنے بیگ میں دو نیلے کھدّر کے کرتے اور ایک سفید شلوار رکھی ۔اپنی کچھ کتابیں اور ڈائری سمیٹی۔ امّی کی یاد برچھی کی طرح سینے میں اتر گئی …
’’ہم جا رہے ہیں …‘‘
’’گم بوٹ میں مال بھرا ہے لے لو…‘‘
’’نہیں ۔‘‘
’’کب لوٹو گی ؟‘‘آواز میں لجلجا پن اتر آیا ۔باہر نکل کر اس نے دروازہ زور سے بند کر دیا ۔
بس سے پورا گروپ ایر پورٹ کے لیے بیٹھ چکا تھا ۔اس کے سامنے ہی کی سیٹ پر روہت بیٹھا تھا ۔اس کی کالی گہری آنکھیں حنا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔
حنا پر ایک روحانی کیفیت طاری تھی ۔روہت کے لبوں پر مسکراہٹ تھی ۔حنا کے دل میں کویل کوکنے لگی، پتّوں کی پازیب بجنے لگی …پپیہا من کے سونے آنگن میں چہکنے لگا ۔اس نے کھڑکی کا پردہ اٹھا کر باہر گہرے کالے آسمان کو دیکھا ۔
ستارۂ سہیل جگمگا رہا تھا ۔
اس کے کانوں میں رویندر ناتھ ٹھاکر کی نظم گونجنے لگی …
’’میں یاتری ہوں …‘‘
مجھے کوئی روک کر نہیں رکھ سکتا …
سکھ دکھ کے سب بندھن متھیا ہیں …
یہ گھر ،یہ بندھن …سب کہاں تو پیچھے پڑے رہ جائیں گے …
جال مجھے نیچے کھینچے رہتے ہیں …
ان کا ایک ایک تار ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جائے گا
غزال ضیغم ۔لکھنو ۔انڈیا