دل مبتلائے ہجر رفاقت میں رہ گیا
لگتا ہے کوئی فرق محبت میں رہ گیا
اس گھر کے دو مکین تھے اک پیڑ اور میں
یہ ہجر تو کسی کی شرارت میں رہ گیا
اک بار منع کرتی ہوئی شام سے تو پوچھ
جو بھی جدا ہوا وہ حقیقت میں رہ گیا
ممکن تھا تجھ کو چھین ہی لیتا جہان سے
لیکن میں کیا کروں میں محبت میں رہ گیا
اب تو ہی میری خالی ہتھیلی کی لاج رکھ
مجھ سے تو کوئی فرق عبادت میں رہ گیا
تجھ پر ہے کوئی زعم نہ خود پر یقیں ندیمؔ
کچھ دن کا ہم میں عشق تو عادت میں رہ گیا