اردو غزلیاتشعر و شاعریگلزار

تجھ کو دیکھا ہے

گلزار کی ایک اردو غزل

تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے

کچھ بھنور ڈوب گئے آب میں چکراتے ہوئے

ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے

چھینا جھپٹی میں اُفق کھلتا گیا جاتے ہوئے

جھپ سے پانی میں اُتر جاتی ہے گلنار شفق

سُرخ ہو جاتے ہیں رُخسار بھی، شرماتے ہوئے

میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری

شوخ پتے نے کہا شاخ سے مُرجھاتے ہوئے

حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح

ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے

سِی لئے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سُن کر

میلی ہو جاتی ہے آواز بھی، دُہراتے ہوئے

 

گلزار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button