مرے ساقیا ، مجھے بھُول جا
مرے دلرُبا ، مجھے بھُول جا
نہ وہ دورِ عیش و خوشی رہا
نہ وہ ربطِ و ضبط دلی رہا
نہ وہ ادجِ تشنہ لبی رہا
نہ وہ ذوقِ بادہ کشی رہا
میں الم نواز ہوں آج کل
میں شکستہ ساز ہوں آجکل
میں سراپا راز ہوں آج کل
مجھے اب خیال میں بھی نہ ملا
مجھے بھُول جا مجھے بھُول جا
مجھے زندگی سےعزیز تر
فقط ایک تیری ہی ذات ہے
تری ہر نگاہ مرے لئے
سبب سکونِ حیات تھی
مری داستانِ وفا کبھی
تری شرح حُسن صفات تھی
مگر اب تو رنگ ہی اور ہے
نہ وہ طرز ہے نہ وہ طور ہے
یہ ستم بھی قابلِ غور ہے
تجھے اپنے حُسن کا واسط
مجھے بھُول جا ، مجھے بھُول جا
قسم اضطرابِ حیات کی
مجھے خامشی میں قرار ہے
مرے صحنِ گلشنِ عشق میں
نہ خزاں ہے ، نہ اب بہار ہے
یہی دل تھا رونقِ انجمن
یہی دل چراغِ مزار ہے
مجھے اب سکونِ دگر نہ دے
مجھے اب نویدِ سحر نہ دے
مجھے اب فریب نظر نہ دے
نہ ہو وہم عشق میں مُبتلا
مجھے بھُول جا ، مجھے بھُول جا
شکیلؔ بدایونی