بدن میں برف بوتی جا رہی ہے
یہ چاہت سرد ہوتی جا رہی ہے
مری تنہائی کی پلکوں پہ جگنو
کوئی نفرت پروتی جا رہی ہے
سہے گی آرزو کی بیل کیسے
ہوا بے درد ہوتی جا رہی ہے
حسیں سرمائی شاموں کی اُداسی
کسک من میں بسوتی جا رہی ہے
ہرے پیڑوں کی بانہوں میں سمٹ کر
سنہری دھوپ، سوتی جا رہی ہے
کبھی جو تھی گلابوں سی رفاقت
وہ اب کانٹے چبھوتی جا رہی ہے
یہ بے منزل مسافت میرے دل کی
تھکن گہری سموتی جا رہی ہے
کسی بچھڑے ہوئے کی یاد کب سے
مرے کمرے میں روتی جا رہی ہے
چھلکنے دو ابھی آنکھیں شبانہؔ
یہ بارش زخم دھوتی جا رہی ہے
شبانہ یوسف