اس دن شاید ہم نے رستہ بدل لیا تھا
جس دن تم نے اپنا لہجہ بدل لیاتھا
منبر پر بھی درباری ہی بیٹھے ہوئے تھے
کچھ نے شجرہ کچھ نے لبادہ بدل لیاتھا
اس دن بھیڑ عزیزوں کی تھی گھر پر میرے
تنہائی نے اپنا چہرہ بدل لیاتھا
پرسش میں بھی دل آزاری ہی پنہاں تھی
کچھ لوگوں نے صرف طریقہ بدل لیاتھا
اس کی یاد سے باتیں کرتے دیکھ کے مجھ کو
خاموشی نے اپنا کمرہ بدل لیاتھا
دستاروں کے پیچ کھُلے تو ہم نے جانا
کس خوبی سے جہل نے حلیہبدل لیاتھا
میں تو اجالوں کا قیدی تھا لیکن طارق
جانے کس پل شب نے پہرہ بدل لیاتھا
ڈاکٹر طارق قمر