اونگھتی بدلیوں کے سائے میں
رینگتی شب کا جاگتا، آنچل
موجہء باد غم سے لرزاں ہے، بے قراری میں ہاتھ ملتے ہیں
چشمِ بے خواب، ہجر آرائی
اور اک ہم کہ کنجِ زنداں میں، کتنے دلگیر واہمے لے کر
ان سلاخوں کی سرد پلکوں سے
تھرتھراتے سوال چنتے ہیں
سقفِ خستہ کی چند درزوں سے
ٹپٹپاتے ہیں موسموں کے اشک
جسم و فرش و سریر و روزن پر، چپچپاہٹ سی رینگ جاتی ہے
ہم کو محسوس بھی نہیں ہوتا ، ہے لہو یا لعاب کرمک بے
کیا بتائیں کہ گھول دیتی ہے
جن فضاؤں میں زہر مرگ ، حیات
جرم کسب معاش میں پھنکتے
دستکاران روزگاراں کے
کارخانوں کی چمنیوں سے، مسام، مثل حشرات، رعب آدم کو
بیچ بازار میں کچلتی ہوئی، اشقیا کی سواریوں کی دھول
ان ہواؤں میں دو گھڑی بھی اب
سانس لینے کو ہم ترستے ہیں
جیسے آنکھیں جوان بیوہ کی
طنز یزداں پہ مسکرا اٹھیں
بجھتی چوکھٹ پہ منتظر مائیں
جیسے ہلکی سی ایک آہٹ پر
چونک سی جائیں، جھلملا اٹھیں
الجھنوں کے سکوت سے جیسے
ارتعاش خیال برپا ہو
کیا خبر
وقت کے الاؤ کی
راکھ میں کچھ شرار باقی ہوں
جسم کی کارگاہِ ضو افشاں
بے طلب ، نقش خام ہونے تک
سونپنا چاہتی ہے پھر خود کو
وصل کی سب سے دلنشیں ساعت
وقت کا سب سے جاں فزا لمحہ
عمر کا سب سے جاوداں موسم
ضمیر قیس