وحشتِ دل ہی بنے حیلہ مسیحائی کا
غمگساری سے کہیں انت ہو تنہائی کا
غیر ممکن ہے رہیں سلسلے پیہم لیکن
گاہ بیگاہ تو دیدار ہو زیبائی کا
یادیں محبوب سہی پردہ بھی لازم ہے تِرا
ایروں غیروں سے کریں ذکر شناسائی کا؟
قحطِ بادہ ہے مگر جامِ نظر مل جائے
سیر ہوگا دلِ مدہوش تمنائی کا
اس رہائی سے لبِ دار ہی جانا ہے بھلا
جس کے پل پل میں چُھپا خوف ہو رُسوائی کا
ایک اک کر کے سبھی فخر ہوئے ہم سے بعید
وہ بھی باقی نہیں جو فخر تھا دانائی کا
دل نوازی تری محفل کا ہے پیشہ لیکن
کردیا تونے برا حال تماشائی کا
حنا بلوچ