بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
وضاحتیں سنتے وقت اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔کہ اللہ کی عدالت بھی اک روز لگنی ھے۔
لوگوں کو خقیر جاننے والے خقیتاً خود دل کے فقیر ھوتے ہیں۔
جب اللہ کی نظر میں سب برابر ھے پھر ہم کیوں درجوں پر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہماری ذات کا معیار بلند ہو جاتا ھے تب ہم دوسروں کو نیچا جانتے ہیں۔
اللہ کا قانون اک جیسا۔وہاں اپنے اپنے اعمال۔
مجھے خوشی اس بات کی ھوتی ھے
اللہ کے ہاں پورا پورا انصاف ھوگا۔
وہاں فریب و دکھاوا نہی ھوگا۔
وہ الوکیل بھی ھے ۔بیشک رحمان ھے پر جبار بھی ھے۔غفورو رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ خود کہتے ہیں ۔بڑا دردناک عذاب ھے ان کے لیے جو خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
خود اپنی جانوں پر مطلب خود کو زمینی خدا سمجھ کر جھوٹ و فریب و انا و تکبر کے دکھاوے میں آکر دوسروں کو خقیر سمجھ کر ان پر اپنے قانون نافذ کر کہ وہ درخقیقت خود پر ہی ظلم کرتے ہیں۔
اللہ ہدایت بھی تب دیتا جب ہم مانگتے ہیں یا سوچتے ہیں ورنہ رسی ڈھیلی ھے ھماری اپنی موج میں اڑتے رہتے ہیں بےلگام ھو کر۔
جب وہ کھینچتا ھے تب ہم کہتے ہیں اللہ رحم کر۔تب اللہ رحم نہی کرتا۔
تب ہمارا کیا ہمارے سامنے رکھا جاتا ھے۔
اور ہم مظلوم بن جاتے ہیں۔
کاش ھم سمجھ سکیں اللہ کیسے بندوں کو پسند کرتا ھے پھر اس جیسا بن جاۓ۔
اور رب ہم سے راضی ھوجاۓ۔
فقط خود کو بدلنے کا ارادہ کرتے ہیں۔
پر ہم کہاں خدا سے ڈرتے ہیں۔
روز کہتے ہیں خود کو ترغیب دینا
پھر وہی کام کرتے ہیں۔
مہلت ھے یہ کچھ روز کی صنم
پھر رب اور اسکے فرشتے حکم الہی سے ہماری سزا کا آغاز کرتے ہیں۔
غوروفکر کی بات ھے کہ آج بھی خدا کا قانون وہی ھے جو محمدﷺ کے دور میں تھا
دنیا بدلی ھے نظام خدا نہی ۔
بس اللہ ہم۔سب کا کو شعور کے ساتھ نیک بننے کی توفیق دے آمین۔
صنم فاروق
رقیب تحریر