ذرا سی روشنی گر وقت پر بہم ہوتی
مرے چراغ پہ ہی رات مختتم ہوتی
تمہارا ہاتھ جو ہوتا ہمارے شانے پر
ہر ایک جست مقدر کی ہم قدم ہوتی
دلوں میں قید رکھی ہے وگرنہ اس کی طلب
زمیں کا المیہ بنتی، زماں کا غم ہوتی
فقیر دیکھ رہے تھے بڑی توجہ سے
جھجکتی رمز رگ و پے میں آ کے رم ہوتی
نجف میں ہوتے تو ہم اپنا مرثیہ کہتے
فضائے کوئے اماں، بات کا بھرم ہوتی
اگر میں سر نہ جھٹکتا تو وہ غلط رائے
سب آنے والوں کی نظروں میں محترم ہوتی
عجیب تر رہا ماحول اہنے ذہنوں کا
جو شے بھی رونما ہوتی وہ ایک دم ہوتی
ماہ نور رانا